معروف صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اس مہینے کے آخر تک صورت حال واضح ہو جائے گی کہ ملک میں کیا ہونے والا ہے۔ اسٹیبلمنٹ، حکومت اور عمران خان کے ایک دوسرے سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ پنڈی پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ دونوں جانب بات کررہی ہے اور یہ دنوں سائیڈیں آسانی سے بات نہیں مانیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بہت سخت پوزیشن لی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پتوں کو سینے کے ساتھ لگائے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب شہباز شریف نوازشریف کو ہر ایک چیز بتا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے ساتھ بھی براہ راست بات کرے گی۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو کہا ہے کہ مجھے فوراً الیکشن دیں، اگلا آرمی چیف میں خود لگاؤں گا۔ اس سے کم پہ میں راضی نہیں ہوں گا۔ اس کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ کہ رہی ہے کہ آرمی چیف نگران حکومت کو لگانے دیں۔ اس پہ عمران خان سے بات اٹکی ہوئی ہے۔ دوسری جانب حکومت والے آرمی چیف کی تعیناتی پر مذاکرات کرنے کو تیار ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہم فوری طور پر الیکشن کیلئے تیار نہیں ہے۔ حکومتی اتحاد نے فوری طور پر الیکشن میں جانے سے انکار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پہلے دن سے یہ گیم شروع کی ہے کہ آرمی چیف میرا ہونا چاہیے اور آرمی کو میرے ساتھ کھڑے ہونا چاہئیے۔ عمران خان اصل میں باجوہ صاحب کو کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ابھی رک جائیں اور معاملات خان صاحب کے ہاتھ میں دے کر رخصت ہوں۔ سیاست دانوں میں اس وقت مقابلہ لگا ہوا ہے کہ پہلے میں آپ کو توسیع دوں گا پہلے میں دوں گا۔ عمران خان اگر اسٹیبلشمنٹ کی بات نہیں مانیں گے تو اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم اور پرویز الہٰی کے ذریعے عمران خان پر پریشر ڈالے گی۔ عمران خان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے جو معاملات چل رہے ہیں اس کا مرکزی کردار عارف علوی ہے۔ یہ ملاقاتیں بھی عارف علوی کے پاس ہی ہو رہی ہیں۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ گیم کرنے میں ماہر ہے، وہ پورا پلان بناتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان کو نکالا ہی اس لئے تھا کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگا کر اپنا ون پیج والا اتحاد اور مضبوط کر کے ہماری اگلے پانچ دس سال کیلئے چھٹی نہ کروا دیں۔
عدم اعتماد کے فوری بعد اگر پی ڈی ایم والے الیکشن کی جانب چلے جاتے تو یہ الیکشن جیت سکتے تھے کیونکہ اس وقت عمران خان بہت غیرمقبول تھے۔ میں نے کہا تھا کہ اگر آپ آئی ایم ایف کا انتظار کریں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔ پی ڈی ایم نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ ہم حکومت میں رہیں گے۔ پی ڈی ایم والے کہتے تھے کہ اب ہم ڈٹ جائیں گے۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ یہ آپ کو نہیں رہنے دیں گے، اسٹیبلشمنٹ جس دن چاہے گی آپ کی چھٹی ہوجائے گی۔ جب ان کو آئی ایم ایف سے پیسے مل جائیں گے تو ان کو آپ کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ ان پر عمران خان کا پریشر بہت بڑھ جائے گا۔
اب وہی ہو رہا ہے کہ انہوں نے عمران خان کے ساتھ کوئی مک مکا کرنا ہے اس لئے وہ اب حکومت کو بھیجنا چاہ رہے ہیں۔ اب لوگ عمران خان کے پچھلے 4 سال بھول گئے ہیں اور یہ ہونا ہی تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے بعد عمران خان کے پاس جانا ہی تھا۔ دیکھنا یہ تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو کوئی سپیس دے گا یا نہیں تو وہ بھی سامنے آ گیا ہے کہ عمران خان اب سپیس دے رہا ہے۔ مجھے مختلف اشاروں سے سمجھ آئی کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ جس طرح عارف علوی، اسد عمر وغیرہ نے عمران خان کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تو مجھے لگا کہ اب ضرور کوئی پلان بن رہا ہے۔ سیلاب نہ آتا تو ایک مہینہ پہلے ہی یہ سارا کام ہو چکا ہوتا۔ سیلاب کی وجہ سے تھوڑا لیٹ ہوا ہے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ پروگرام ہر پیر سے جمعہ کی رات 9 بجے نیا دور ٹی وی سے نشر کیا جاتا ہے۔