جسٹس بندیال کا دور جو بے دھیانی میں کیے گئے انصاف سے عبارت ہے

آج سپریم کورٹ کے احکامات ماننا یا نہ ماننا حکومتوں اور اداروں کی صوابدید پر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ نے اپنی اخلاقی طاقت کھو دی ہے۔ آپ کو جاتا دیکھ کر خوشی ہوئی، سر۔

جسٹس بندیال کا دور جو بے دھیانی میں کیے گئے انصاف سے عبارت ہے

آسکر وائلڈ نے کہا تھا؛ 'کچھ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں سب خوش ہوتے ہیں اور کچھ لوگ جب بھی جاتے ہیں سب خوش ہوتے ہیں'۔

ہمیں سب سے پہلے اچھی باتیں یاد کرنی چاہئیں۔ چیف جسٹس بندیال نے اس وقت آئین کی سربلندی کے لئے علم بلند کیا جب ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں بلینک چیک پیش کیا گیا تھا کہ وہ اس میں جو چاہے لکھ دیں اور بدلے میں صرف PDM اور اس کے 'نیوٹرل' پشت پناہوں کو کھلی چھٹی دے دیں کہ وہ صوبائی انتخابات میں جتنی چاہیں تاخیر کریں۔ یہ بھی افواہیں ہیں کہ انہیں مستقبل میں 'دندان ساز' والی کرسی کی پیشکش کی گئی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ ناکام ہوئے تو اس کی کچھ وجہ تو یہ تھی کہ رات واقعی بہت اندھیری تھی اور کچھ یہ کہ بتیاں بجھانے میں انہوں نے خود بھی کافی کردار ادا کیا تھا۔

اہم معاملات میں انہوں نے اپنے پیش رو جسٹس گلزار کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہی عافیت جانی کہ مشکل مقدمات رجسٹرار پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لو۔ چیف جسٹس بندیال نے بھی رجسٹری کے ذریعے ہی عدالت چلائی جس نے یقینی بنایا کہ واقعتاً متنازعہ معاملات فائلوں میں ہی دبے رہیں۔ جب بلوچستان ہائی کورٹ نے ڈی ایچ اے کوئٹہ کو غیر قانونی قرار دیا تو انہوں نے یہ حکم معطل کر کے فائل گم کر دی۔ جب آنجہانی وقار سیٹھ نے آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گردوں کے مقدمات کو غیر قانونی قرار دیا کیونکہ مقدمے کی کارروائی میں شفافیت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا تھا تو بندیال کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کیا اور پھر یہ کیس بھی کہیں گم ہو گیا۔

جسٹس بندیال نے ثابت کیا کہ چیف جسٹس چاہے گلزار صاحب کی طرح گلستان کے کسی سکول سے پڑھا ہو یا ان کی طرح کولمبیا اور کیمبرج سے، ان دونوں کی اطاعت گزاری میں واحد فرق بس فیصلوں میں لکھی انگریزی زبان کے معیار کا ہی ہوتا ہے۔

ماضی میں ہم نے ایسے چیف جسٹس دیکھے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیلنا کوئی فخر کی بات نہیں لیکن یہاں ہمیشہ سے ہی یہ ہوتا آیا ہے۔ سیاسی چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔ یہ بھی افسوسناک ہے لیکن ماضی میں بھی ایسی مثالیں رہی ہیں۔ مگر یہاں ایک ایسے صاحب تھے جن پر پہلے دو الزامات بھی ہیں اور ساتھ وہ اپنے برادر ججز کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے – جمہوری اقدار کا ایک مبلغ جو اپنے کورٹ میں ووٹوں سے خائف تھا۔ بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کی عدالت میں انصاف کا معیار محض یہ تھا کہ اس کا فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے یا نہیں۔

نواز شریف کے لئے بے ایمان ہونے کی سزا زندگی بھر کے لئے سیاست سے نااہلی ٹھہری۔ لیکن فیصل واؤڈا کے کیس میں یہی سزا ایک 'کالا قانون' قرار پائی۔ جب نواز کو ہٹانا تھا تو چیف جسٹس بندیال کا خیال تھا کہ سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ووٹ دینے کے حوالے سے ہدایات دیتا ہے۔ جب عمران خان کو پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے لئے مسلم لیگ ق کے ووٹوں کی ضرورت پڑی جب کہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اس کے برعکس ہدایات جاری کر چکے تھے تو بندیال نے فیصلہ دیا کہ اصل باس تو پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے پہلے تو اپنے یو ٹرن کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ یہ یو ٹرن تھا ہی نہیں۔ اور بعد میں یہ کہہ کر کہ اگر ایک جج بے دھیانی میں غلط یو ٹرن لے لے تو بعد ازاں ہوش و حواس بحال ہونے پر ایک اور یو ٹرن لے کر صحیح راستے پر واپس آ سکتا ہے۔

ان کے زیادہ تر متنازعہ فیصلے مذہبی اقتباسات سے شروع ہوتے۔ مخالفین کہہ سکتے ہیں کہ اپنا الو سیدھا کرنے کو تو شیطان بھی آیات پڑھ کر سنا سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے میں ان کے اختلافی نوٹ کی بنیاد یہ تھی کہ منصف کا عہدہ ایک مقدس عہدہ ہے، اور اس میں ایسی ایسی تفصیلات موجود تھیں جو کیس کے دوران سامنے ہی نہیں آئی تھیں۔

لیکن جب جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا بالکل مماثل ریفرنس آیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی تحقیقات کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال میں الزامات درست نہیں تھے۔

چیف جسٹس اب نوحہ کناں ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پیچھے لوگ ہاتھ دھو کر پڑے تھے جب کہ ان کے خلاف الزامات میں کوئی دم نہیں تھا۔ غالباً یہ ایک مبہم قسم کی معذرت ہی تھی۔ شاید معزز جج صاحب ایک بار پھر بے دھیانی میں احتساب کے شہسوار بن بیٹھے تھے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مذہبیت کی جگہ عملیت لے لیتی۔ جب جسٹس اطہر من اللہ نے جوڈیشل افسران کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کی کیونکہ اس ریاستی سخاوت کے مستحق نہ ہوتے ہوئے یہ پلاٹ حاصل کرنے سے ان کی ساکھ اور آزادی مجروح ہو سکتی تھی تو جسٹس بندیال نے یہ فیصلہ معطل کر دیا۔

معزز جج صاحب اپنی turf کا دفاع خوب کرتے تھے اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو قاعدے میں لانے کی تمام پارلیمانی کوششوں کو بڑی شد و مد سے ناکام بناتے رہے۔ وہ اپنی constituency کے دفاع میں ہر حد تک جانے کو تیار تھے لیکن اپنی رعایا کے نہیں۔

ریاض حنیف راہی وہ وکیل تھے جنہوں نے Review of Judgments بل کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا۔ جب یہ کیس عدالت میں لگا تو راہی صاحب پوڈیم پر آئے اور درخواست کی کہ وہ اپنی پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ گذشتہ ایک ہفتے سے اغوا تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ وہ یہ خود بیتی عدالت کو سنانا چاہتے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس بندیال کچھ پریشان ہو گئے اور راہی صاحب کو کہا کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ پھر بتایا کہ ہم 'غیر معمولی حالات' سے گزر رہے ہیں اور ملک کی 'اقتصادی صورتحال بڑی غیر مستحکم ہے'۔ انہوں نے راہی صاحب کو کہا کہ 'یہاں شکایت لانے کی بجائے حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں'۔ کچھ ماہ بعد 63-A سے متعلقہ مقدمے کی سماعت کے دوران اخباری اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ 'کیا ہم بے غیرت ہیں؟'

عظیم فاسٹ باؤلرز دو دو کی جوڑیوں میں شکار کیا کرتے ہیں۔ پاکستان کے پاس وسیم، وقار کی جوڑی تھی۔ عمران اور سرفراز کی جوڑی تھی۔ کپتان نے بعد میں بہت سے ISI سربراہان کے ساتھ بھی بڑی اچھی جوڑی بنائی۔ مگر ان کی شاید سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے جسٹس بندیال کو ایک بہترین جوڑی دار سمجھا۔ اگر عمران خان اپنی جوڑی پر اعتبار کرتے ہوئے PDM اور اپنی پارٹی کے درمیان بات چیت میں رخنہ نہ ڈالتے جب کہ مخالفین انہیں جولائی میں انتخابات کی پیشکش کر رہے تھے، تو آج ملک کے سیاسی حالات بالکل مختلف ہوتے۔

اس کے بعد چیف جسٹس بندیال نے صوبائی الیکشن کیس میں بجائے اتفاق رائے تلاش کرنے کے بنچ دوبارہ تشکیل دے دیا۔ اگر وہ جسٹس منصور علی شاہ کی اس تجویز سے اتفاق کر لیتے کہ لاہور ہائی کورٹ کو حکم دیا جائے کہ تین دن کے اندر الیکشن کمیشن کی 90 دن میں انتخابات کروانے کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرے تو ایک ہفتے میں چیف جسٹس خود الیکشن کروانے کا حکم دے رہے ہوتے۔ اور وہ بھی ایک تقریباً فل کورٹ کی مکمل تائید کے ساتھ۔ صرف تین دن نہ دینے کے چکر میں آئین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔

بندیال دور سے ملنے والا سبق یہ ہے کہ آپ خرگوش کے ساتھ بھاگتے ہوئے بھیڑیوں کے ساتھ مل کر شکار کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے اس وگ اور گاؤن کے نیچے آپ کا خود بھی ایک بھیڑیا ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے ایک شکاری حس چاہئیے ہوتی ہے۔ آپ کو اسپتالوں پر چھاپے مارنے پڑتے ہیں، ڈیم بنانے کے حکم جاری کرنا ہوتے ہیں، وزرائے اعظم کو توہینِ عدالت کے کیسوں میں نااہل کرنا ہوتا ہے۔ خرگوش تو گھبرا کر قریب ترین سوراخ میں گھسنے سے پہلے بس اتنی ہی بہادری دکھا سکتا ہے جتنی انہوں نے دکھائی۔

آج سپریم کورٹ کے احکامات ماننا یا نہ ماننا حکومتوں اور اداروں کی صوابدید پر ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم کورٹ نے اپنی اخلاقی طاقت کھو دی ہے۔ آپ کو جاتا دیکھ کر خوشی ہوئی، سر۔

**

قانون دان عبدالمعز جعفری کا یہ مضمون انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔

عبدالمعز جعفری قانون دان ہیں اور مختلف آئینی و قانونی معاملات پر کالم لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین انگریزی روزنامے Dawn میں شائع ہوتے ہیں۔