بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (دسمبر 9 تا دسمبر 15)

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (دسمبر 9 تا دسمبر 15)

بلوچستان: فورسز کی کاروائی، 4 دہشتگرد ہلاک، بارودی سرنگ دھماکہ میں 6 اہلکار شہید


بلیدہ میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کے دوران مارے گئے


دہشتگردوں نے آئی ای ڈیز سے فورسز کو نشانہ بنایا


شہید ہونے والے نائب صوبیدار گل، نائیک لال خان، نائیک سجاد، نائیک نواز، سپاہی سجاد اور انور شامل


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال، صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ کا اہلکاروں کی شہادت پر اظہار افسوس، شدید مذمت


بلوچستان کے ضلع تربت کے علاقے بلیدہ میں خفیہ آپریشن کیا گیا جہاں فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشتگرد ہلاک ہوئے، آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے آئی ای ڈیز سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 6 اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا، آئی این پی کے مطابق فورسز کی گاڑی دہشتگردوں کی نصب بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی، بارودی سرنگ پھٹنے سے 6 اہلکار شہید ہو گئے، شہید ہونے والے اہلکاروں کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہے، صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم کھوسہ نے سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کیلئے فورسز نے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں، حالیہ واقعہ میں اہلکاروں کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے تربت کے علاقے مند میں سکیورٹی فورسز پر دہشتگردوں کے بم حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہید اہلکاروں نے فرض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا اور انکی یہ قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ دہشتگردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ہماری بہادر سکیورٹی فورسز جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہیں اور آج بھی سکیورٹی فورسز نے جرأت مندی سے مقابلہ کرتے ہوئے چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔






لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے، اختر مینگل


یہ صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لاپتہ افراد کے لواحقین شدید سردی میں پیاروں کیلئے سراپا احتجاج ہیں، حکومت اقدامات کرے


شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری سے ملاقات، بھر پور کردار ادا کرینگے، وفاقی وزرا، وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں پر اتفاق


وفاقی حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اقدامات اٹھائے، لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہوگا تو بلوچستان کے دیگر مسائل بھی حل ہوجائیں گے، خواتین اور بچے آج بھی شدید سردی کے باوجود سراپا احتجاج ہیں، ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر مینگل نے وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری سے ملاقات میں کیا، ملاقات میں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے بات چیت ہوئی اور اتفاق کیا گیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے وزیراعظم اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی۔ اس موقع پر سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ آج بھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کے لواحقین ہڑتال پر بیٹھے اور سخت سردی کے باوجود اپنے لواحقین کی بازیابی کے منتظر ہیں، ہماری پارٹی نے وفاقی حکومت کی حمایت اس لئے کی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت لاپتہ اافراد کی بازیابی کیلئے اقدامات اٹھائے، امید ہے پی ٹی آئی اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی، اگر پی ٹی آئی وعدہ وفانہ کر سکی تو ایک سال انتظار کے بعد پھر ہم اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں گے، انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے جس کا حل ہونا ضروری ہے، مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کے ورثا ذہنی کوفت اور پریشانی سے دوچار ہیں اور انکی بازیابی کو یقینی بنایا جائے، سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر کسی پر بھی کوئی الزام ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے، وفاقی وزرا نے یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں، وفاقی حکومت اس بارے میں سنجیدہ ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے، لاپتہ افراد کا مسئلہ ملک کے دیگر مسائل کی طرح بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے بعد بلوچستان کی پسماندگی بھی ختم ہوجائے گی۔






بلوچستان، قحط سالی سے متاثرہ اضلاع کیلئے 5 ارب روپے کی سکیمیں منظور


11 اضلاع کے 50 ہزار افراد متاثر، 15 دن کا راشن بجھوا دیا، ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہے ہیں، سلیم کھوسہ، ظہور بلیدی


میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز جھوٹی ہیں، قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، صوبائی وزرا کی پریس کانفرنس


صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے سلیم کھوسہ اور صوبائی وزیراطلات ظہور بلیدی نے کوئٹہ میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ خشک سالی کی وجہ سے قحط کا شکار ہونے والے اضلاع کیلئے حکومت کی جانب سے 5 ارب روپے کی سکیموں کی منظوری دی گئی۔ اب تک حکومت کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 11 اضلاع میں 50 ہزار کے قریب افراد متاثر ہوئے، پی ڈی ایم اے نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز اور تمام کمشنرز سے قحط سالی سے متعلق رپورٹ طلب کر رکھی ہے، 11 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے رپورٹس بھیجی ہیں ان کو متاثرہ خاندانوں کیلئے ریلیف کا سامان ان کی ڈیمانڈ کے مطابق بھیج دیا گیا ہے، اب تک پی ڈی ایم کی جانب سے 28500 خاندانوں سے متعلقہ اضلاع کی ڈیمانڈ 14000 متاثرہ خاندانوں کیلئے 15 دن کا راشن بھیجا جا چکا ہے اور مزید بھی بھیجا جا رہا ہے، خشک سالی کے نتیجے میں مال مویشی کی بڑی تعداد، فصلیں اور زرعی زمینیں متاثر ہوئیں جس پرقابو پانے کیلئے حکومت اقدامات کر رہی ہے، پی ڈی ایم اے کے پاس موجودہ سامان ناکافی ہے لہٰذا فنڈز کی فراہمی کیلئے حکومت کو سمری ارسال کی ہے تاکہ متاثرہ اضلاع میں سامان کی ترسیل جاری رہے، اب تک خشک سالی سے انسانی جانوں کے زیاں کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا اور سوشل میڈیا پر قحط سالی سے متعلق ویڈیوز میں کوئی صداقت نہیں یہ موجودہ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش ہے، صوبائی وزرا نے کہا کہ خشک سالی سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت کی مدد فراہم کرنے کیلئے بلوچستان اسمبلی میں ہم نے قرارداد بھی منظور کر رکھی ہے، بلوچستان کے کئی اضلاع مون سون کی بارشوں کے سلسلے میں نہیں آتے جس کی وجہ سے خشک سالی کا سامنا ہوتا ہے۔






بلوچستان میں میڈیا پر غیر اعلانیہ قدغن کو قانونی شکل دی جا رہی ہے، بی این پی


میڈیا میں بلوچستان سے متعلق خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر کے ہماری آواز کو دبا کر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی مسئلہ نہیں


بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے عوام کو معلومات تک رسائی آسان ہوئی ہے، سوشل میڈیا گروپس عوامی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے بلوچستان میں غیر جانبدرانہ صحافت کو فروغ دیں، بلوچستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر عائد غیر اعلانیہ قدغن کو قانونی شکل دی جا رہی ہے، اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کا صوبے کے سیاسی و سماجی معاملات سے کوئی تعلق نہیں، کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران بی این پی رہنما لشکری رئیسانی اور دیگر کا کہنا تھا کہ میڈیا پر لگنے والے قدغن کی نظیر جنرل ضیاالحق کی آمریت سے بھی نہیں ملتی، آج مبصرین خود اعتراف کرتے ہیں کہ میڈیا پر قدغن کو قانونی شکل دینے کیلئے قانون بنایا جا رہا ہے تاکہ اٹھنے والی سیاسی و عوامی آواز کو دبایا جا سکے، بلوچستان میں میڈیا پر عائد پابندیاں کچھ زیادہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر بارڈر پار راہول گاندی کی خبر تو پہنچ جاتی ہے مگر بلوچستان سے متعلق خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر کے ہماری آواز کو دبا کر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا گروپ نے تمام تکالیف کے باوجود بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا، بی این پی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اخبارات پر قدغن لگائی جا سکتی ہے مگر سوشل میڈیا پر نہیں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے 8 ممالک میں بہتر بڑی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، سوشل میڈٰیا صوبے کے سیاسی، سماجی، معاشرتی معاملات کو اجاگر کرنے سمیت ساحل و وسائل اور قدرتی معدنیات کے تحفظ کو یقینی بنائے، صوبے میں انسانی حقوق کے مسائل، تعلیم، بیروزگاری کا خاتمہ، سستے انصاف تک عوام کی رسائی وہ نکات ہیں جن پر سوشل میڈیا کو کام کرنا چاہیے۔






5 سال ک دوران سی پیک میں بلوچستان کے صرف 2 منصوبے شامل کیے گئے، ترجمان صوبائی حکومت


شامل کیے گئے دو منصوبوں کا عام آدمی کو براہ راست کوئی فائدہ نہیں، وزیراعلیٰ جام کمال پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں


اب جو منصوبے منظور ہوں ان میں بڑا حصہ بلوچستان کا ہونا چاہیے، جے سی سی اجلاس کا ایجنڈا دیکھ کرشرکت کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، بیان


حکومت بلوچستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس رواں ماہ چین میں منعقد ہوگا، جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار کی شرکت بھی متوقع ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کی خواہش ہے کہ سی پیک کے حوالے سے اس اہم اجلاس میں جو منصوبے منظور کیے جائیں ان میں بڑا حصہ بلوچستان کا ہونا چاہیے، اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران سی پیک مں بلوچستان کے صرف دو منصوبے شامل کیے گئے جو گوادر بندرگاہ اور حبکو کول پاور پروجیکٹ ہیں، یہ دونوں منصوبے بلوچستان میں ضرور ہیں لیکن ان کا ایک عام آدمی کو براہ راست فائدہ نہیں مل سکتا، ترجمان نے کہا کہ گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت سی پیک منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ اجلاس میں بھی سی پیک میں بلوچستان کو اس کا جائز حصہ نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور وزیراعلیٰ بلوچستان کا مؤقف تھا کہ اگر سی پیک میں بلوچستان کیلئے سڑکوں، ڈیمز، انڈسٹریل پارکس، زراعت، لائیو سٹاک، تعلیم اور پانی کے بڑے منصوبے شامل ہوتے تو بلوچستان کے عوام کو فائدہ پہنچ سکتا تھا، ترجمان نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی کی وفاقی حکومتوں نے غلطیاں کیں اور صوبائی حکومتیں ان کی ہاں میں ہاں ملاتی رہیں، جس کی وجہ سے سی پیک جیسے بڑے منصوبے سے بلوچستان مستفید نہ ہو سکا، وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ جی سی سی کے آئندہ اجلاس میں جو منصوبے منظور کیے جائیں لازمی ہے کہ ان میں بڑا حصہ بلوچستان کا ہونا چاہیے اور یہ توقع ہے کہ اس حوالے سے کمیشن نہ تو کوتاہی کرے گا اور نہ ہی ماضی کی غلطی دہرائے گا۔