سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ووٹنگ بے شک خفیہ ہولیکن سیٹیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی بنتی ہیں،کسی جماعت کوتناسب سے کم نشستیں ملنا الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی، کم نشستیں ملیں توذمہ دارالیکشن کمیشن ہوگا ، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کرنشستیں جیت لے توسسٹم تباہ ہوجائے گا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پرسماعت کی، چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ دیگرممبران سمیت پیش ہوئے ۔
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے عدالتی سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، قیامت تک رازداری کی بات کررہے ہیں ایسا نہ توآئین وقانون اور عدالتی فیصلوں میں لکھا ہے الیکٹرونک ووٹنگ بھی قابل شناخت ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ ہرامیدوارسے ووٹوں کی خریدوفروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا ووٹوں کوخفیہ رکھنے کا مطلب ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے ۔
جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟سیاسی جماعت کی سینٹ میں نشستیں صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں ، الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کوکیسے یقینی بنائے گا،وکیل نے کہاکہ کم وبیش 20 آزاد اراکین اسمبلی بھی ہیں ۔
چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ چیف الیکشن کمشنرابھی تک اطمینان بخش جواب نہیں دے سکے،آپ اپنا قانون پڑھ کرسب بتا رہےہیں،بات کی گہرائی سمجھیں،پورے ملک کی قسمت آپ کے ہاتھ میں ہے الیکشن کمیشن کی وجہ سے حکومت بنتی ہے ۔
اٹارنی جنرل نے خریدوفروخت کے نئے طریقے ایجادہونے کا بتایا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی،کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کرنشستیں جیت لے توسسٹم تباہ ہوجائے گا ۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینٹ الیکشن کالعدم ہوجائیں گے؟۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کا اختیارہےکہ ووٹ چوری نہیں ہونے دینا،سیاسی جماعتوں کوتناسب سے کم سیٹیں ملیں توقانون سازی کیسے ہوگی ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگرعدالت الیکشن کمیشن کوکہے تویہ اقدامات کریں گے ورنہ نہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے الیکشن کمشنرصاحب ہم صرف معاونت کرنا چاہتے ہیں آپ بات کوسمجھ نہیں رہے، پچھلے سینیٹ انتخابات میں پارٹی تناسب سے مختلف نتائج آئے اس پراب تک کیا کاروائی کی؟ چیف الیکشن کمشنراپنے مؤقف پر قائم رہے کہ آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اب تک پہلے دن ولی بات کررہے ہیں ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے پاس اضافی اختیارات ہیں تاکہ آئین خمیازہ نہ بھگتے۔
چیف الیکشن کمشنرنے چیف جسٹس کے استفسار پر بتایاکہ وطن پارٹی کیس کا فیصلہ نہیں پڑھا ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے اتنا اہم فیصلہ نہیں پڑھا توآپ سے کیا بات کریں فیصلے میں پورا طریقہ کاردرج ہے ۔
اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل ہوئے تو عدالت نے تینوں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز سمیت دیگرفریقین سے دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے شمائل بٹ کے دلائل دیے اور کہا کہ عدالت ماضی میں ووٹ خفیہ رکھنے کے معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے، آئین کی کسی ایک شق کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا۔ انتحابی عمل کی ہر شق پر عمل پارلیمانی نظام کے مجموعی تناظر میں ہوتا ہے، اراکین اسمبلی اپنی مرضی سے سینیٹ الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ متناسب نمائندگی کا مطلب صوبائی اسمبلی کی سینیٹ میں عددی نمائندگی ہے۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر متناسب نمائندگی ہی ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اکثریت کی حکومت اور اقلیت کی نمائندگی ہوتی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بھی اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد اب اس کیس کی مزید سماعت کل ہوگی جہاں دیگر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے دلائل دیں گے۔