شاید ہی کوئی دن گزرتا ہے جب پاکستانی اخبارات میں کسی شخص کی خودکشی کی خبر نہ ملے۔ کہیں کوئی ارب پتی اور بااثر شخصیت بظاہر چھوٹی موٹی بیماری سے تنگ آ کر اپنے ہاتھ سے اپنی جان لے رہی ہے تو کہیں چند ہزار روپے کا مقروض سمجھتا ہے کہ قرض خواہوں کے ہاتھوں مستقل ذلت سے بہتر ہے ایک ہی دفعہ اس دنیا کو خیرباد کہہ دیا جائے۔ کہیں سے خبر آتی ہے کہ ایک غیر معمولی کھلاڑی جسے ابھی اقوام عالم میں پاکستان کا نام روشن کرنا تھا، ذہنی دباؤ کے سامنے ہار مان کر خود موت کی گھاٹی میں اتر گیا۔ ان اندوہناک خبروں کے بیچ ہم نے سوچا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کلینکل سائیکالوجی کے وزٹنگ پروفیسر آف سائیکاٹری، دی برین کلینک نامی ادارے کے ڈائریکٹر اور پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی کے نائب صدر پروفیسر ماجد علی عابدی سے سمجھتے ہیں کہ کیا پاکستان خودکشیوں کی وبا کی زد میں آ گیا ہے۔
سوال: کیا پاکستان میں خودکشی کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے؟
ڈاکٹر ماجد علی عابدی: میری ذاتی رائے میں خودکشیوں کا تناسب وہی ہے، فرق یہ پڑا ہے کہ پہلے خودکشی کی موت کو اہل خانہ حادثہ یا کچھ اور قرار دے کر چھپاتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ کولونیل دور کا قانون نافذ العمل تھا جس میں خودکشی یا خودکشی کی کوشش قابل دست اندازی پولیس جرم تھا۔ خودکشی کی موت کا بتانے کا مطلب تھا کہ ایک پیچیدہ قانونی عمل میں پھنس جانا۔ بہت سالوں کی کوشش کے بعد پچھلے دسمبر میں یہ قانون تبدیل ہوا اور اب خودکشی جرم نہیں بلکہ مرض سمجھا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ذہنی صحت کے بارے میں عوامی آگہی میں کچھ بہتری آئی ہے چنانچہ اب لوگ چھپانے کے بجائے رپورٹ کرنے لگے ہیں۔ رپورٹنگ بڑھ گئی ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اس طرح کی خبروں کو سیاسی مفاد کے لئے بڑھا چڑھا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے ایسی خبروں کو نمک مرچ چھڑک کر ایسے پیش کرتے ہیں کہ وجوہات مزید پیچیدہ لگتی ہیں۔ مثلاً حال ہی میں شیزوفرینیا کے ایک مریض جسے ڈپریشن بھی تھا، نے علاج چھوڑ رکھا تھا۔ جب اس نے اپنی جان لی تو اسے یوں مشتہر کیا گیا کہ اس شخص کی بے روزگاری اور مفلوک الحالی کی براہ راست ذمہ دار حکومت ہے۔
سوال: عالمی جائزوں میں پاکستان میں خودکشی کی شرح اوسط سے کم بتائی جاتی ہے۔ کیا ہمارے اعداد و شمار قابل اعتبار ہیں؟
ڈاکٹر عابدی: اعداد و شمار سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں خودکشی کا تناسب ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعداد و شمار ٹھیک ہیں۔ ایک مربوط خاندانی نظام جو ہمارے یہاں موجود ہے وہ کئی طرح سے خودکشی کا امکان کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
سوال: لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عابدی: خودکشی کی وجوہات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو ذہنی یا نفسیاتی امراض کے شکار افراد ہیں جن کا مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ خودکشی کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر شدید ڈپریشن کا عارضہ ہے جس میں اگر علاج سے غفلت کی جائے تو خودکشی کا رحجان پیدا ہو جاتا ہے۔ پھر شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر اور نشہ آور ادویات کے عادی مریض ہیں۔ ان میں بھی خودکشی کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ شخصیاتی بحران (پرسنیلٹی ڈس آرڈر) ہوتے ہیں جن میں مریض خودکشی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
دوسری قسم وہ ہے جن میں مریض پہلے کسی نفسیاتی عارضے کا شکار نہیں ہوتا لیکن اچانک کوئی ناکامی یا سماجی دباؤ اسے خودکشی پر مجبور کر دیتے ہیں۔
خودکشی کا ایک گروہی رویہ بھی ہے جس میں آپس میں منسلک افراد ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ خودکشی پر اکساتے ہیں۔
لیکن زیادہ تر خودکشیوں کے کیسز کے ذہنی و نفسیاتی اسباب ہوتے ہیں۔ اس لئے جو دوسری قسم کی خودکشی ہے جس میں توقعات پر پورا نہ اترنے پر اپنی جان لے لی جاتی ہے، وہ بہت کم ہیں۔
سوال: پاکستان میں نفسیاتی بیماریوں کا شعور کیوں نہیں پایا جاتا؟ مریض اور اس کے لواحقین یہ امراض کیوں چھپاتے ہیں؟
ڈاکٹر عابدی: پاکستان کا شمار ان بدقسمت ممالک میں کیا جا سکتا ہے جہاں ذہنی اور نفسیاتی امراض کے متعلق آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ ان امراض کو پاگل پن اور مریض کو پاگل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان امراض اور مریضوں کے متعلق بڑی منفی رائے رکھتے ہیں۔ درحقیقت جو مریض نفسیاتی کلینک سے رجوع کرتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ ان بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جنہیں پاگل پن نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک المیہ ہے کہ انہیں معاشرہ پاگل، کھسکے ہوئے، چریا یا نفسیاتی کہتا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی جب ٹینشن یا ڈپریشن جیسے عام امراض کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ اپنا علاج مستند سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے نہیں کراتے بلکہ اس کی جگہ نام نہاد پیروں، روحانی عاملوں یا باباؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے نظر لگ گئی ہے، کسی کو اثر یا سایہ لگتا ہے، کوئی اسے جادو یا ٹونا بتاتا ہے، کوئی اسے جنات کی کارستانی قرار دیتا ہے۔ ان علاجوں کو ہمارا معاشرہ بہت آسانی سے قبول کرتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی اور لاعلمی مل کر ہمارے یہاں نفسیاتی امراض کے علاج کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔
میں آپ کے توسط سے پڑھنے والوں کو بتانا چاہوں گا کہ 90 فیصد مریض جو ہم تک پہنچتے ہیں ان کے دماغ میں خصوصی کیمیکلز جنہیں نیوروٹرانسمیٹرز کہتے ہیں، کا عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہ اجزا ہمارے دماغ کے لئے ایک طرح کے وٹامن یا ہیپی ہارمون کا کام کرتے ہیں۔ یہ تمام کے تمام امراض بہت آسانی سے قابل علاج ہیں اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جدید ادویات نشہ آور ہیں اور نا غنودگی کرتی ہیں، مریض مسلسل سوتا نہیں رہتا بلکہ بروقت دوائیں لینے کے بعد روزمرہ کے معمولات اسی طرح سرانجام دیتا ہے جیسے بلڈ پریشر یا ذیابیطس کے مریض کرتے ہیں۔ لیکن شعور اور معیاری تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہ ساری معلومات عام عوام تک نہیں پہنچ رہیں۔
سوال: اگر کسی فرد کا خود یا آس پاس کسی شخص کا خودکشی کرنے کو دل چاہے تو کیا کرنا چاہئیے؟
ڈاکٹر عابدی: اگر کوئی شخص خود زندگی سے مسلسل بیزاری محسوس کرے یا کوئی دوسرا شخص اس بیزاری کا بار بار اظہار کرے تو اسے بہت سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ عموماً جب لوگ اپنے عزیز، رشتہ داروں، دوستوں سے اس بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پہلے خود ان سوچوں سے لڑنے اور نبٹنے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن جب نہیں نبٹ پاتے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ خیال آنا یا زندگی ختم کرنا کوئی مناسب بات نہیں ہے، تبھی وہ اپنے اقربا کے سامنے دل کھولتے ہیں۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جن لوگوں نے خودکشی کی، انہوں نے خودکشی کرنے سے پہلے ایک سے زائد افراد کے سامنے ذکر کیا کہ میرا دل اس طرف مائل ہو رہا ہے۔ لیکن عموماً ان کے آس پاس موجود لوگوں نے اسے اتنا سیریس نہیں لیا۔
پہلا کام یہ کرنا چاہئیے کہ اس بات کو سنجیدگی سے لیں اور جس شخص نے آپ سے اس خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے پوچھیں کہ یہ کیوں ذہن میں آ رہا ہے؟ کب سے آ رہا ہے؟ فوری طور پر اس کو تسلی دیں اور نرمی سے بتائیں کہ یہ سوچ غیر مناسب ہے اور جن بھی مسائل کی وجہ سے آپ ٹینشن یا ڈپریشن یا سٹریس کا شکار ہیں وہ بہت آرام سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ علاج سے منفی خیالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھر بلاتاخیر ان کے علاج کا بندوبست کرنا چاہئیے اور قریب واقع اسپتال کے سائیکاٹرسٹ یا سائیکالوجسٹ سے فوری طور رابطہ کرنا چاہئیے۔
یاد رہے کہ بہت سارے امراض بہت آسانی سے قابل علاج ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ خودکشی کے ہر مریض کو دوا دی جائے۔ بے تحاشا مریض ایسے ہیں جن کو سائیکوتھیراپی دے کر یا ان کی بار بار کاؤنسلنگ کے ساتھ ان علامات اور بیماریوں کو کنٹرول کر لیا جاتا ہے۔
سوال: پاکستان میں ڈپریشن کتنا عام ہے؟
ڈاکٹر عابدی: بہت وثوق سے نہیں کہا جا سکتا البتہ مختلف شہروں میں لوکل سطح پر جو بہت سی ریسرچز کی گئی ہیں ان کا بہت محتاط اوسط نکالیں تو ممکنہ طور پر پاکستان میں 10 فیصد افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وقت ڈپریشن کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی اس وقت ایک ملک گیر سروے کرا رہی ہے جس کی تکمیل اگلے سال کے اوائل تک متوقع ہے۔ تبھی ہمارے سامبے قابل بھروسہ اعداد و شمار آئیں گے اور ان کی بنیاد پر ہم حتمی بات کر سکیں گے۔
جو مریض نفسیاتی کلینکس تک پہنچتے ہیں ان میں جو بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سب سے عام عوارض میں ڈپریشن پیش پیش ہے۔ چند سال قبل عالمی ادارہ صحت کی پاکستان کے حوالے سے ایک رپورٹ آئی تھی جس کے مطابق ہمارے یہاں 25 سے 30 فیصد افراد ذہنی بیماریوں کا شکار تھے۔ ان میں سے اکثریت ڈپریشن اور انگزائٹی ڈس آرڈر سے متاثر تھے۔ ان دو امراض کا ذکر میں اس لئے کر رہا ہوں کیونکہ ان دونوں کا علاج با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ ان امراض کی وجہ سے جو معذوری ہوتی ہے اس سے جان خلاصی مشکل نہیں۔ مزید براں خودکشی کے رحجان کا تدارک بھی ممکن ہے۔
سوال: ڈپریشن کے مرض کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر عابدی: کئی اسباب ممکن ہیں۔ یہ موروثی طور پر ایک ہی خاندان کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔ کچھ لوگوں میں دماغ کے خصوصی کیمیکلز جیسے سیروٹونن، ڈوپامین کا فقدان بھی ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی عوامل جیسے روزمرہ کے سٹریس، بے روزگاری، امن عامہ کے مسائل بھی ڈپریشن کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک کثیر العوامل مرض ہے جس میں بائیولوجیکل، نفسیاتی اور سماجی تمام عوامل اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
سوال: ڈپریشن کی علامات کیا ہیں؟
ڈاکٹر عابدی: دو علامات بہت اہم ہیں؛ ایک یہ کہ مریض کی روزمرہ زندگی میں دلچسپی، لطف اور خوشی کا ختم ہو جانا جبکہ دوسری یہ کہ اس کے دل و دماغ پر مسلسل اداسی، مایوسی اور بے زاری کا چھائے رہنا۔ ان دو بڑی علامات میں سے کسی ایک کا ہونا اور بہت سی چھوٹی علامات مثلاً نیند کا کم ہونا یا بہت بڑھ جانا، وزن کا کم ہو جانا یا بہت بڑھ جانا، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کھو دینا، فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہونا، توانائی کم محسوس ہونا، اپنی تمام صلاحیتوں کے باوجود خود کو کمتر سمجھنا وغیرہ۔ ان میں سے کوئی سی تین چار علامات ہوں جو مسلسل دو ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے تک برقرار رہیں اور ان کے نتیجے میں مریض کی روزمرہ زندگی میں تعطل پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ مریض کو ڈپریشن ہو گیا ہے۔
سوال: کیسے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر عابدی: یہ بات اہم ہے کہ اگر ایک شخص کا رویہ اچانک تبدیل ہو گیا ہو، وہ پہلے کے مقابلے میں لوگوں میں گھلنا ملنا کم کر دے، اپنی دلچسپی کے امور سے کنارہ کش ہو جائے تو ضرور کھوجنا چاہئیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ عمومی طور پر کسی ذہنی مرض کے آغاز کی یہی علامات ہوتی ہیں، چاہے وہ ڈپریشن ہو، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، انگڑائٹی یا نشہ آور اشیا کے استعمال کی عادت۔ یہ تمام کے تمام امراض وہ ہیں جو خودکشی کی وجوہات اور رحجانات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
ایک مرتبہ دہرا دوں کہ خودکشی کے خواہاں افراد ایک سے زائد افراد کے سامنے اپنی نیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس لئے عوام الناس کو یہ آگہی دینا بہت اہم ہے کہ آس پاس کوئی شخص زندگی سے بیزار ہو رہا ہو یا زندگی ختم کرنے کی منصوبہ بندی کا سوچ رہا ہو تو اس بات کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ مریض کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے کہ وہ ان خیالات کا مکمل اظہار کرے اور پھر خیالات شیئر کرنے تک ہی نہیں رکنا چاہئیے بلکہ اس کا انجام علاج پر ہونا چاہئیے۔ کیونکہ صرف دل کھول کر رکھ لینے سے مریض کے خیالات بند نہیں ہوں گے چنانچہ ایمرجنسی بنیادوں پر علاج کا بندوبست کرنا چاہئیے۔