جیسے آج ہر طرف کرونا کی وبا زیر بحث ہے اور پوری دنیا خوف میں مبتلا ہے کہ نجانے آئندہ کی زندگی کیسے آگے چلے گی اور زندگی کا طرز عمل کیا ہوگا، ایسے ہی 1918 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران بھی ہوا کہ سپینش فلو کے نام سے ایک وبا، کنساس امریکہ سے شروع ہوئی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تقریباً پانچ سے دس کروڑ لوگوں کو نگل گئی۔ وبا کنساس امریکہ سے ہوتی ہوئی برطانیہ کے راستے بمبئی (ممبئی) اور پھر پورے برصغیر میں پھیل گئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پوری دنیا ایک طرف پہلی جنگ عظیم کی آگ میں جل رہی تھی اور مغربی امریکی اتحاد اور روس کی فوجیں خندقوں میں پھنسی جرمنی سے لڑ رہی تھیں کہ سپینش فلو نے آ جکڑا۔ سپینش فلو نے 1919 تک پوری دنیا کو لپیٹ میں لیے رکھا۔ خاص کر ایسی آبادیوں اور محکوم ملکوں کو زیادہ متاثر کیا جہاں غربت کے ہر طرف ڈیرے تھے۔
برصغیر یا ہندوستان اس زمانے میں برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا اور برٹش راج کا سورج اپنی بلندیوں پر تھا۔ لیکن طبقاتی تقسیم اور غربت اور بدحالی کی وجہ سے عام ہندوستانی بری طرح وبا سے متاثر ہوا، کیونکہ برطانوی مشنری کی زیادہ توجہ برصغیر سی دولت جمع کر کے برطانوی راج اور اس کی سلطنت کو استحکام دینے پر تھی، نہ کہ ہندوستانیوں کی فلاح یا ان کی غربت کو ختم کرنے پر۔
سپینش فلو اور برٹش انڈیا پر پی ایچ ڈی کرنے والی Marua Chhun لکھتی ہیں کہ راج کے زیرِ تسلط وبا نے ہندوستان کو اس بری طرح قابو میں لیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کے 1 کروڑ 20 لاکھ باسیوں کو نگل لیا۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ سب لاک ڈاؤن کو بنا منصوبہ بندی اور جلد بازی میں وقت سے پہلے کھولنے کی وجہ سے ہوا۔ اور وبا کی دوسری لہر اتنی بے قابو تھی کہ ہندوستان کیا، امریکہ، برطانیہ، اور یورپ کی دوسرے ممالک دوسری لہر کو سنبھال نہ سکے۔ چن کی تحقیق کے مطابق پورے ہندوستان میں میں سپینش فلو کے متاثرین کی طبقاتی اور نسلی تقسیم کو اگر دیکھا جائے تو مرنے والے 61.6 فیصد نچلی ذات کے ہندو تھے، دوسرے نمبر پر مسلمان 19.2 فیصد، ہندو 9.18، بھارتی کرسچین 18 فیصد، یہودی تقریبآ 15 فیصد جب کہ پارسی اور یورپ کے بھارت میں رہنے والے لوگ 9، 9 فیصد کے قریب تھے۔ وہ اپنی تحقیق میں لکھتی ہیں کہ پنجاب کے کمشنریٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لاشیں سڑکوں پر ہر طرف پھیلی تھیں۔
تاریخ کے اوراق کو اگر پلٹا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سپینش فلو کی وبا کی دوسری لہر امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے شروع ہوئی۔ سان فرانسسکو وہ شہر تھا جس نے 1918 کے فلو پر بہت جلد اور مؤثر طریقے سے قابو پا لیا تھا کیونکہ شہر کی انتظامیہ نے باہر گلی بازاروں میں ماسک لازمی قرار دے دیا تھا، جب کہ مذہبی، سماجی اجتماعات پر سختی سے پابندی تھی۔ چرچ، کلب، شراب خانے اور جوا خانے بند کر دیے گئے۔
جب وبا پر قابو پا لیا گیا تو وہاں اینٹی ماسک اور اینٹی لاک ڈاؤن تحریک شروع ہو گئی اور مقامی انتظامیہ نے دباؤ میں آ کر پابندیاں ختم کر ڈالیں اور شہر کو کھول دیا۔ شہر کے کھلتے ہی اور پابندیاں ختم ہو تے ہی سپینش فلو نے ایک بار پھر پورے شہر کو لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 45 ہزار افراد وبا سے متاثر ہوئے جن میں سے 3 ہزار افرد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تعداد پورے امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں سان فرانسسکو کرونا کے خلاف سب سے زیادہ کامیاب حکمت عملی اپنا رہا ہے۔
کرونا وائرس اور آج کا لاک ڈاؤن
کرونا وائرس کا پھیلاؤ چین کے صنعتی شہر ووہان سے شروع ہوا اور پھر اس نے آن کی آن میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چار ماہ بعد آج پھر پوری دنیا میں یہ بحث جاری ہے کہ لاک ڈاؤن جاری رکھا جائے یا آہستہ آہستہ ختم کیا جائے یا پھر یک دم اٹھا لیا جائے۔ آج یعنی 16 مئی تک پوری دنیا میں 44 لاکھ افراد کرونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ تین لاکھ سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ چین نے تو وبا پر کسی حد تک قابو پا لیا تھا لیکن وہاں اب دوسری لہر آ چکی ہے۔ کوریا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کرونا دوسری لہر شروع ہو چکی ہے، امریکہ ہو یا یورپ، اب تک وبا پر مکمل قابو پانے میں ناکام ہیں۔ کرونا کی ویکیسین کا کچھ پتہ نہیں کب تیار ہو کر دستیاب ہو سکے گی، عالمی ادارہ صحت نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ شاید ویکسین کی تیاری ممکن بھی نہ ہو سکے۔ ہمیں اس وبا کے ساتھ پہلے رہنا سیکھنا ہوگا۔ ہاں ادارہ یہ بھی تنبیہ کر چکا ہے کہ اس صورتحال میں لاک ڈاؤن کھولنا خطرناک ہوگا۔
پاکستان میں بھی روزانہ 14 سے 15 سو افراد متاثر ہو رہے ہیں، اموات کی تعداد 800 سے بڑھ گئی ہے، ہسپتال اور میڈیکل کا عملہ شدید دباؤ میں ہے۔ یہ ہر طرف اپیل کرتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا نظام صحت اس قابل نہیں کہ وبا کی دوسری لہر کا مقابلہ کر سکے۔ وفاقی حکومت ہو یا صوبوں کی حکومتیں، ان کے پاس کرونا سے لڑنے کی کوئی واضح حکمت عملی نہیں اور نہ ان میں کوئی صلاحیت نظر آ رہی ہے۔ لاک ڈاؤن ہو یا غریب مزدور کسان طبقہ، ان کی امداد کے لئے رقوم مختص کی گئی لیکن کیا یہ سلسلہ وبا کے ختم ہونے تک جاری رہ سکتا ہے؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
حکومتیں لاک ڈاؤن پر پابندی پر عمل کرانے پر بری طرح ناکام رہیں، کیونکہ ایک طرف مذہبی گروپوں کا دباؤ تھا تو دوسری جانب تاجر برادری کی رمضان اور عید کے موقع پر بونس کمائی کی لالچ نے حکومتوں کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ پابندیاں نرم ہوتے ہی ہر چھوٹے بڑے شہر میں لوگ بچوں سمیت شاپنگ کرتے پھر رہے ہیں، نہ وبا کا ڈر نہ قانون سے خوف۔ یوم علیؑ پر جس طرح لمبے لمبے جلوس نکلے، ان میں سینکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت نے ثابت کیا کہ ابھی تک ہماری سماجی ذامہ داریوں کے حوالے سے تربیت کا نام و نشان نہیں۔ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے چشم پوشی کیے رکھی، نہ جانے کس مصلحت کی وجہ سے۔
بازاروں، سڑکوں، عبادت گاہوں اور مذہبی گروپوں کے رویوں کی جو صورتحال ہے، خدا نخواستہ ہمارے جیسے ملک میں دوسری لہر ہزاروں نہیں شاید لاکھوں افراد کو نگل لے گی۔ کیونکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کے لئے بجٹ میں جگہ ہمارے ملک میں ویسے ہی کم ترجیح رکھتی ہے اور لوگوں کی فلاح کے بجائے دفاع کے اخراجات اور اشرافیہ کو نوازنا ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان ویسے بھی کہہ چکے ہیں کہ ملک میں لاک ڈاؤن اشرافیہ نے لگایا۔ حقیقت یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کا فیصلہ آپ نے اشرافیہ کی خواہشات کو مدنظر رکھ کر کیا؟ اگر ایسا ہے تو ایسی اشرافیہ کو کیا آپ ایکسپوز کرنا پسند کریں گے جن کی خواہشات عوام جن کے ووٹوں سے آپ آج وزیر اعظم ہیں ان پر حاوی ہیں۔
مضمون نگار سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ ان سے asmatniazi@gmail.com اور ایکس پر @AsmatullahNiazi پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔