بلاول اور نواز شریف کی ملاقات کا مطلب دونوں جماعتوں کا اتحاد نہیں

بلاول اور نواز شریف کی ملاقات کا مطلب دونوں جماعتوں کا اتحاد نہیں
سابق وزیر اعظم نواز شریف قید میں ہیں۔ 2016 میں منظر عام پر آنے والا پاناما کا کیس ان کیلئے فتنہ انگیز ثابت ہوا۔ اس وقت نواز شریف ہل میٹل مقدمے میں سزا کے باعث جیل میں ہیں۔ نواز شریف کا مقدمہ گذشتہ چند ماہ سے سیاست کے میدان میں بحث کیے جانے والے عنوانوں میں سب سے زیادہ زیر بحث رہا۔ لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے یہ موضوع توجہ سے ہٹ گیا تھا۔

لیکن اب یہ دوبارہ سے زیر بحث ہے جس کی وجہ بلاول بھٹو اور نواز شریف کے مابین کوٹھ لکھپت جیل میں ہونے والی ملاقات ہے۔ کئی سال تک پیپلز پارٹی کی قیادت نواز شریف کی ناقد رہی ہے۔

یہ قابل فہم بات ہے کیونکہ 2015 میں جب نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا شکار کرنے کی اجازت دی تو اس کے باعث ان دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت پر کئی مقدمات قائم ہوئے۔ ڈاکٹر عاصم اور آصف زرداری سے تعلق رکھنے والے بڑے نام شدید مشکلات کا شکار رہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=9JO5koY_VVw

ان مقدمات کو قائم ہوئے کئی سال ہو چکے اور یہ آج تک اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکے، نہ ہی ان مقدمات میں ثبوت مہیا کیے جا سکے ہیں۔ اس لئے آصف زرداری مسلم لیگ نواز کی قیادت سے سخت ناراض تھے۔ دونوں جماعتوں کے ماین لڑائی بالکل واضح نظر آئی جب آصف زرداری نے عمران خان کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز کی بلوچستان حکومت کو گرایا اور اسے سینیٹ میں اکثریت نہیں حاصل کرنے دی۔

پیپلز پارٹی کو اس خدمت کے صلے میں پنجاب اور بلوچستان سے کچھ زیادہ نشستیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یکن جونہی انتخابات کا انعقاد ہوا تو طاقتور حلقوں کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود پیپلز پارٹی کو سندھ کی حکومت کے علاوہ اور کچھ نہ حاصل ہوا۔ لیکن یہ بھی کافی نہیں تھا۔

پیپلز پارٹی نے کئی مواقع پر اپوزیشن کو دھوکہ دیا جن میں قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور صدر پاکستان کے انتخابات شامل تھے۔ تحریک انصاف کے پاس مرکز اور پنجاب میں بیحد کم اکثریت تھی اور متحدہ اپوزیشن مل کر اس کے لئے مشکل کھڑی کر سکتی تھی اگر پیپلز پارٹی دغا نہ دیتی۔

https://www.youtube.com/watch?v=8Z4WCNTTlLs

دراصل اس وقت آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر نیب اور ایف آئی اے نے مقدمات بنا رکھے تھے اور آصف زرداری کے پاس اس وقت عمران خان کو وزیر اعظم منتخب ہونے دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ موجود نہیں تھا۔ مقتدر قوتوں کی جانب سے اس تقسیم کے کھیل کا بالآخر سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔

متحدہ اپوزیشن وقت کی ضرورت ہے لیکن پیپلز پارٹی کیلئے صورتحال اس قدر آسان نہیں ہے۔ اگر یہ واضح طور پر مسلم لیگ نواز کی برف جھکاؤ دکھاتی ہے تو جھوٹے بنک اکاؤنٹ کے مقدمات بہت جلد انجام کو پہنچ جائیں گے اور آصف زرداری اور فریال تالپور کو جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ بلاول کا نام بھی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں موجود ہے اور اس سے ان کی ساکھ بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کا ردعمل تھوڑا سا کنفیوژن پر مبنی ہے۔

صورتحال کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آصف زرداری کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جائے گا جب تک کہ فوجی عدالتوں میں توسیع ممکن نہ ہو جائے۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں میں توسیع کو سودے بازی کیلئے استعمال کرے گی۔ اسی لئے بلاول نے کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی۔ آصف زرداری شاید بلاول کے ذریعے مقتدر قوتوں کو یہ پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ یا تو انہیں مکمل ریلیف فراہم کیا جائے یا پھر افراتفری مچے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بلاول آصف زردداری کے ’برے سپاہی‘ یعنی bad cop کا کردار ادا کر رہے ہوں۔ اسی لئے انہوں نے سندھ اسمبلی کے سپیکر کی گرفتاری پر نیب پر تنقید کی اور اٹھارہویں ترمیم کا کھل کر دفاع کیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=zZ1aGplUPEY

اس دوران مسلم لیگ نواز دو دھڑوں کا شکار ہے۔ ایک شہباز شریف کا جبکہ دوسرا نواز شریف کا۔ شہباز شریف کا دھڑا اس وقت نواز لیگ پر اثر و رسوخ زیادہ رکھتا ہے اور مسلم لیگ نواز کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ نواز شاید فوجی عدالتوں کے توسیع پر کسی بھی سودے بازی کے بغیر حمایت کر دے گی۔ اس کے علاوہ نواز شریف کا مقدمہ عدالت میں طے ہونا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فوجی عدالتوں میں توسیع کا بل اس مہینے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے پاس اس بل کو پاس کروانے کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مطلوبہ اکثریت موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سودے بازی کی کوشش کر رہی ہے، اور مسلم لیگ نواز کے پاس اس معاملے میں کچھ خاص اختیار نہیں ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف اس وقت اپنی زندگی کے تکلیف دہ ترین دنوں سے گزر رہے ہیں۔ ان کی بگڑتی ہوئی صحت نے پہلے ہی حکومت وقت کیلئے مشکل صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ابتدا میں پنجاب حکومت نے نواز شریف کو علاج کیلئے ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت دے دی تھی لیکن ہسپتال میں دل کے امراض کے علاج کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔ اسی لئے نواز شریف اب ہسپتال جانے کے بجائے جیل میں ہی قیام کرنے پر بضد ہیں۔ گذشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی نواز شریف کی خرابی صحت کی بنا پر دائر کی گئی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔

حکومت اس وقت کچھ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خود وزیر اعلیٰ کو حکم دیا ہے کہ سابقہ وزیر اعظم کو تمام طبی سہولیات مہیا کی جائیں۔ لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے اور عمل کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن مسلم لیگ نواز کی تائید بھی فوجی عدالتوں کی توسیع کیلئے درکار ہو سکتی ہے۔

ایسے حالات میں نواز شریف اور بلاول کے درمیان ملاقات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کا باعث شاید بن بھی جائے لیکن ابھی اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

مصنف پاکستان کے مختلف اخبارات کے لئے لکھتے رہتے ہیں۔