حیات بلوچ کے بعد کس کا نمبر ہے؟

حیات بلوچ کے بعد کس کا نمبر ہے؟
 

ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ یہ محاورہ صرف کتابی ہے ورنہ بلوچستان میں کبھی بھی اس کو سچ ہوتا کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ البتہ جو بھی بلوچستان میں اقتدار کی مسند پر بٹھایا جاتا ہے وہ اس دورانیے تک خوش کلامی کے ساتھ ریاست کو ماں، باپ اور سب کچھ بول دیتا ہے مگر صرف اقتدار یا اداروں کی سرپرستی حاصل رہنے تک۔

ریاست کو ہمیشہ بلوچستان سے متعلق چند نیوز ویب سائٹس اور کچھ سوشل ایکٹوویٹس سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ وہ مثبت رپورٹنگ نہیں کرتے۔ باوجود اس کے کہ ایک کثیر تعداد صحافیوں کی بلوچستان میں ایسی ہے جنھیں عوام دبے لفظوں میں فرشتے یا فرشتوں کے بندے کہتے ہیں۔ انھیں وہ خبریں چیھڑنے کی اجازت نہیں جو بقول اداروں کے منفی رپورٹنگ کی فہرست میں آتی ہیں۔ ایسے صحافیوں اور ایسی خود ساختہ ہردلعزیز، سیاسی و علاقائی شخصیات بھرپور محنت کے بعد ہر قومی دن جیسے 14 اگست کو تصاویر کے لئے ماحول بناتے ہیں۔ خوب سرمایہ لگایا جاتا ہے تاکہ اوپر سے آشیرباد قائم رہے مگر پھر بھی صرف ایک تصویر سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔

یہ تصویر ہے حیات بلوچ کی جو اپنے بوڑھے ماں باپ کے درمیان خون میں لت پت لاش بنا ہوا ہے۔ بوڑھی ماں ہاتھ اوپر اٹھائے اپنی بے بسی پر ماتم کر رہی ہے جب کہ بوڑھا باپ ہاتھ سر پہ رکھے اپنے بڑھاپے کے سرمائے کو آٹھ گولیوں میں لوٹتے دیکھ کر ساکت ہو چکا ہے۔

حیات بلوچ کی یہ تصویر کسی بھی صورت شیئر کرنے کے قابل نہیں۔ نہ ہی صحافتی اقدار اس کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی انسانی احساسات مگر کیا لاپتہ حسام اور حزب اللہ کی بہن کے آنسوؤں پر کسی کو یقین ہوا کہ کس طرح ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بھائیوں کو بے رحمی سے گسھیٹ کر اٹھایا گیا؟

نہیں۔ بلکہ کئی ہم وطن دوستوں کو ہزاروں لاپتہ افراد کا کیس محض ایک ریاست مخالف ڈرامہ لگتا ہے کیونکہ کسی بھی ملکی میڈیا میں ایسی کوئی خبر نہیں دکھائی جاتی۔ اس لئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی عوام کو سیما اور دوسری بلوچ بہنوں، بوڑھی ماؤں اور بچوں کا رونا صرف ڈرامہ لگتی ہیں۔ ایسی ایکٹینگ جیسی وینا ملک سرحد کے اس پار جا کر کرتی تھی اور یہ بدبخت لاپتہ افراد کے اہل خانہ ملک کے اندر ہزاروں کلومیٹر کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد پیدل چل کر کرتے ہیں۔

حیات بلوچ کے قتل کی ذمہ دار محض آٹھ گولیاں نہیں ہو سکتیں جنہیں چلنے کے لئے ہی دیا گیا ہے ورنہ پولیس جیسی فورسز کے ہوتے ہوئے سرحدوں کے محافظ شہروں میں گشت نہ کرتے۔ اور حیات بلوچ کی لاش صرف بلوچستان کے حالات سے بے خبری اور اداروں کے اختیارات سے متعلق شکوک و شبات پیدا نہیں کرتا بلکہ اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ ہر چند ماہ بعد سویلین اور فوجی حکام جو دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا گیا، مٹھی بھر دہشت گردوں کو شکست دی گئی ہے اور ہر نئے قومی دن کے پروگراموں میں درجنوں افراد کے ساتھ فوٹو لیا جاتا ہے اور مثبت خبریں بنائی جاتی ہیں کہ ہتھیار ڈال دیے اور قومی دھارے میں شامل ہوگئے وغیرہ وغیرہ تو وہ کون لوگ ہیں جو اب بھی فورسز پر حملہ کرتے ہیں اور جوابی کارروائی میں حیات مارے جاتے ہیں؟

آج حیات کے دوستوں سمیت کئی لوگ سڑکوں اور پریس کلبز کے سامنے اُس حیات کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اپنے دوستوں کو پریس کلبز اور احتجاجوں سے دور رہنے کا مشورہ دیتا تھا کہ یہاں احتجاج کرنے والوں کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے۔

حیات بلوچ کی موت نے ایک بار پھر ان بلوچ ماؤں کو خوفزدہ کر دیا ہے جو سمجھتی تھیں کہ اگر ان کے بچے بلوچستان سے باہر رہیں گے تو سلامت رہیں گے مگر حیات بلوچ تو ملک کے سب سے بڑے شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، مارا گیا اور ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے۔

آج بلوچستان کے وزیر خزانہ نے اس اہلکار کے لئے لفظ درندہ صفت استعمال کیا جس کی گولی سے حیات مارا گیا، اس لفظ کے استعمال کے لئے پتہ نہیں وزیر صاحب کو کہاں کہاں سے کتنی اجازتیں لینی پڑی ہوں گی مگر بلوچستان سے متعلق ہر ظلم جو چھپ نہیں سکتا اسے کسی نہ کسی طرح تھوڑا ہی سہی تسلیم تو کر لیا جاتا ہے مگر ختم نہیں۔ نواز شریف صاحب جب پی پی حکومت کے وقت اپوزیشن میں تھے تو بلوچستان کے دورے پر فورسز کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے تھے مگر جب حکومت ملی تو ’خاموشی عبادت ہے‘ سمجھ کر بھول گئے۔

اب آئندہ کے لئے یہ بات اگر طے ہے کہ بلوچستان آنے والی کئی سالوں تک ایسا ہی رہے گا تو کم از کم اس تاثر کو جو بلوچستان میں پایا جاتا ہے کہ فورسز کو بلوچستان میں بھیج کر یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کافر، غیر ملکی ایجنٹ رہتے ہیں اور ہر بلوچ بی ایل اے کا بندہ ہے، انہیں اتنا سمجھایا جائے کہ اپنی حفاظت ایسے کریں کہ کوئی حیات درمیان میں ناحق نہ مارا جائے اور ایسے نفسیاتی مراکز بلوچستان میں بنائے جائیں جہاں لاپتہ افراد کے لواحقین اپنا علاج بھلے ہی نہ کرا سکیں مگر فورسز کے جوان تو کرا سکیں اور بعد میں یہ نوبت نہ آئے کہ کوئی وزیر ان کے لئے درندہ صفت کا لفظ استعمال کرے۔

حیات بلوچ کے یونیورسٹی کے دوست اس صدمے سے اب تک باہر نکل نہیں پا رہے ہیں کیونکہ ان کی موت 14 اگست سے ایک دن پہلے بلوچستان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے برابر ہے۔ حیات کی ایک دوست جن کا تعلق گوادر سے ہے وہ بھی جامعہ کراچی سے ایم فل کر رہی ہیں۔ وہ ایک ماں ہیں اور انہیں آج اپنی فکر کم اور اپنے بچوں کی فکر زیادہ پریشان کر رہی ہے۔ وہ کراچی پریس کلب میں سوال کرتی ہی کہ ’کیا بلوچستان کی مائیں اپنے بچوں کو اس لئے پیدا کرتی ہیں کہ ایک دن ان کی تصویر کے نیچے کوئی کمنٹ کرے کہ اللہ شہید کو جنت نصیب کرے‘؟

حیات کے قتل سے اب ایک بے چینی بلوچستان میں مزید شدت اختیار کر گئی ہے، جو ہر احتجاجی پوسٹر پر لکھا ملتا ہے کہ حیات بلوچ کے بعد کس کا نمبر ہے؟

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔