مجھے نکالنے کے لئے ثاقب نثار، آصف کھوسہ نے فوج کا کندھا استعمال کیا: شوکت صدیقی

01:31 PM, 19 Aug, 2022

نیا دور
اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی والوں نے برہنہ ہو کر میرے خلاف انتقامی کاروائی کرنے کی کوشش کی۔

صحافی عمار مسعود کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شوکت صدیقی نے کہا کہ ان کا معاملہ 2017 میں شروع ہوا جب خادم رضوی صاحب نے فیض آباد میں دھرنا دیا اور ہمارے پاس اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن آئی کہ یہ دھرنا ختم کریں، جڑواں شہروں کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ اس پر میں نے ایک جوڈیشل آرڈر کیا اسی آردڑ کی بنا پر انہیں ہٹایا بھی گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی وقت ایک معاہدہ کیا گیا جس میں وفاقی حکومت فریق تھی، تحریک لبیک فریق تھی جب کہ ثالث پاکستان کی 'اصل حکومت' (فوج) بنی۔ انہوں نے کہا کہ میرا یہاں آئینی ایک اعتراض بنتا تھا کہ وفاقی حکومت کے ماتحت ایک ادارہ فوج احتجاج کرنے والوں کے لئے ثالث بن جائے، اس پر میں نے سوال اٹھائے تو پہلے کچھ چیزیں تھیں مگر اب انہوں نے مجھے زیادہ تیزی سے ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا۔

"میں سیدھی اور صاف بات کرتا ہوں کہ آئی ایس آئی والوں نے برہنہ ہو کر میرے خلاف انتقامی کاروائی کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ اتفاق ہے کہ اسی وقت دو تین چیزیں اکٹھی ہو گئیں۔ اس وقت میں نے ایک جنرل آرڈر کر رکھا تھا کہ اسلام آباد سے تمام تجاوزات ختم کی جائیں چاہے وہ سرکاری اداروں نے کی ہیں یا پرائیویٹ لوگوں نے۔ اسی آرڈر میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر آبپارہ روڈ کے گرد و نواح میں جو غیر قانونی قبضے تھے وہ بھی آ گئے تو اس کے بعد مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ آپ یہ آرڈر واپس لیں، تو میں نے صاف انکار کر دیا کہ نہیں میں یہ آرڈر واپس نہیں لوں گا، اس پر عمل کراؤں گا، آپ کو اس آرڈر سے مسئلہ ہے تو آپ سپریم کورٹ چلے جائیں۔ خیر وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ اور باوجود اس کے کہ وہ بینچ ثاقب نثار ہیڈ کر رہے تھے انہوں نے بھی کہا کہ ہم نے بھی یہ آرڈر کیا ہوا ہے کہ آپ کو وہ جگہ خالی کرنی پڑے گی بہر حال ہم آپ کو ٹائم دے دیتے ہیں، اور انہوں نے ٹائم دے دیا۔"

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ایک اور اہم سوال پیٹیشن کی صورت میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں میرے سامنے آ گیا، اس میں یہ تھا کہ آرمی سے کیپٹن اور میجر رینک سے جو لوگ سول سروسز میں آتے ہیں، وہ صرف تین شعبوں میں جاتے ہیں یعنی ڈی ایم جی، پولیس اور فارن سروس۔ یہ کس قانون کے تحت آتے ہیں؟ اب اس پر بھی انہیں بہت زیادہ تکلیف تھی۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فیض آباد دھرنا، آبپارہ روڈ کے تجاوزات اور آرمی کے سول افسران کے متعلق یہ تینوں چیزیں اکٹھی ہو گئیں جہاں انہوں نے ان کے مخالفت میں فیصلے دیے اور اسی وجہ سے انہیں نشانہ بنانا شروع کیا گیا۔

شوکت عزیز صدیقی نے حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پہلے انہوں نے میرے دونوں بچوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

"بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو میں اپنے سینے میں چھپا کر رکھنا چاہ رہا تھا مگر آج میں وہ کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے یہ بات آج سے پہلے کسی جگہ ریکارڈ پر نہیں کی۔ میری بیٹی اس وقت بحریہ یونیورسٹی میں جاتی تھی اس کو اغوا کرنے کی بھی کوشش کی گئی"۔ یہ کہتے ہوئے شوکت صدیقی آبدیدہ بھی ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ساری چیزیں میں نے اپنے چیف جسٹس کو لکھ کر بھیجی تھیں تو ان کا ایک بہت غیر سنجیدہ رویہ ہوا کرتا تھا، انہوں نے آئی جی کو خط لکھا لیکن مجھے پولیس سے کبھی کوئی خطرہ تھا ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد مجھے ایک صاحب جن کا میں نام نہیں بتا سکتا وہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن میں تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور آپ کی سکیورٹی کے حوالے سے انہوں نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جنرل فیض سے ملنے سے قبل ان کے ایک برگیڈیئر جو سیکٹر کمانڈر بھی تھے عرفان رامے صاحب، میں عمرہ کر کے واپس آیا تھا تو انہوں نے میرے گھر مہمانوں کی موجودگی میں مجھ سے بدتمیزی کی اور میں نے انہیں یہ کہا تھا کہ میں چاہوں تو میں آپ کو سیدھا اڈیالہ جیل بھجوا سکتا ہوں لیکن میں نے ایسا کیا نہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے پتہ تھا کہ میرے بڑوں نے میرے پیچھے کھڑے نہیں ہونا تھا، یعنی ثاقب نثار صاحب۔ میں اپنے چیف جسٹس کے نوٹس میں لایا تو انہوں نے ہنس کر ٹال دیا۔

شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ جنرل فیض حمید بعد میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے افسر کی گاڑی میں ان سے ملنے آئے، مجھے یہ لگا کہ شاید وہ میری سکیورٹی کی وجہ سے آئے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے جو کچھ ہو چکا تھا وہ ان کے علم میں تھا۔ خیر جنرل فیض نے ملاقات کرتے ہی پہلے اپنے برگیڈیئر کے رویے کی معذرت کی۔

بعد ازاں جنرل فیض حمید نے ایک جنرل سی بات کرنا شروع کر دی کہ جب نیب کورٹ سے کسی کو سزا ہو جائے تو ہائی کورٹ میں کیا ہوتا ہے؟
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس کیس کی بات کر رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے کیس کی بات ہو رہی ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی تو اس کا فیصلہ بھی نہیں آیا، ابھی تو ٹرائل کورٹ ہو سکتا ہے بری ہی کر دے، تو انہوں نے فوری جواب دیا کہ نہیں نہیں سر، یہ تو طے ہو چکا ہے، سزا تو ان کو ہونا ہی ہے، ہم صرف یہ پتہ کرنا چاہ رہے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو پھر ہائی کورٹ میں کیا ہوگا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے انکشاف کیا کہ جوں ہی پانامہ سے متعلق پٹیشنز اسلام آباد ہائی کورٹ آنا شروع ہوئیں، تو مجھے ڈویژنل بنچ سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے کہا پاکستان حتیٰ کہ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ چیف جسٹس اور سینیئر پیونی جج ڈی بی میں نہیں بیٹھ رہا۔ اس سے پہلے نیب کیسز، مرڈر کیسز، آئی سی اے اور باقی دیگر کیسز میرے ساتھی ججز مل کر طے کرتے تھے۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا جنرل فیض نے مجھے کہا کہ اگر آپ کے پاس یہ کیس آتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب آپ کو بعد میں دوں گا پہلے یہ بتائیں کہ آپ نے مجھے بنچ سے ہٹوایا کیوں؟ تو فیض حمید نے انکار نہیں کیا بلکہ سیدھا یہ کہا کہ ہماری لیگل ٹیم نے ہمیں بتایا کہ شوکت عزیز صدیقی صاحب کسی کی سنتے نہیں ہیں تو ان کے پاس ہمارے کیسز نہیں جانے چاہئیں۔ پھر ہم نے آپ کے بڑوں سے بات کی اور انہوں نے یقین دلایا کہ آپ کو ان کیسز سے علیحدہ رکھا جائے گا۔ شوکت صدیقی نے کہا کہ انہوں نے بہت فرینک ہو کر مجھ سے یہ ساری باتیں کیں۔
شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے پہلے ثاقب نثار سے بات کی، ثاقب نثار نے میرے چیف جسٹس سے بات کی جو اس وقت چھٹیوں پر کوئٹہ تھے، اور ہوتا یہ ہے کہ جج چھٹیوں پر ہوں تو سارا کام سینیئر ترین جج کرتا ہے لیکن ہم سارا کام کرتے تھے مگر کیسز کی مارکنگ کوئٹہ سے ہوتی تھی۔

" جنرل فیض حمید سے پہلی ملاقات 35 منٹ کی ہوئی اور پھر تین چار دن بعد وہ دوبارہ بھی آئے۔ دو دفعہ وہ میرے گھر تشریف لائے۔" شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے جنرل فیض حمید کو جواب دیا کہ میں کسی کی دنیا بنانے یا بگاڑنے کے لئے اپنی عاقبت خراب نہیں کر سکتا۔ میرے پاس یہ کیس نہیں تو اس کو ڈسکس کرنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر یہ کیس میرے پاس آتا ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ملزم کو سزا ثبوتوں کے باوجود کم ملی ہے اور اس کا جرم بڑا ہے تو میں سزا بڑھا دوں گا لیکن بات اگر الٹ ہے تو کسی کو خوش کرنے کے لئے میں یہ کام نہیں کروں گا۔ میں اپنے ضمیر کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ جب میں نے جنرل فیض حمید کو کہا کہ سر میں تو میرٹ پر فیصلہ کروں گا تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ 'سر اس طرح تو ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی'۔ "میں نے انہیں کہا کہ آپ نے بڑی غلط محنت کی تھی یہ آپ کا کام نہیں ہے۔ میں نے انہیں کہا کہ پاکستان کے ساتھ اس طرح مت کریں اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔"

اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کو اندازہ تھا کہ اس بات کے آپ کی ذات پر کیا نتائج ہوں گے، شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ مجھے اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ "عوام میں تاثر ہے کہ مجھے فوج نے نکالا۔ لیکن میں حقیقت بتاتا ہوں کہ میرے کیس کے علاوہ جتنے بھی ہائی پروفائل کیسز ہوئے اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج نے عدلیہ کا کندھا استعمال کیا، لیکن میرے کیس میں عدلیہ نے فوج کا کندھا استعمال کیا۔ کیونکہ ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ صاحب تقریباً میری گردن کے قریب تھے۔"

اس کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2012 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی درخواست مجھے اور انور کاسی صاحب کو مارک تھی۔ کاسی صاحب سینیئر جج تھے۔ ہمارے سامنے درخواست آئی کہ اس کیس کو جلد سنا جائے۔ کاسی صاحب نے مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا سر آپ سمجھتے ہیں جلدی سنا جانا چاہیے تو مجھے اعتراض نہیں۔ فیصلے کا میڈیا میں شور پڑ گیا۔ سپریم کورٹ سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مجھے بلا لیا۔ مجھے لگا شاید میں نے کسی فیصلے میں کوئی انگلش کی غلطی کر دی ہے یا تشریح غلط ہو گئی ہے تو وہ مجھے کونسل کرنے کے لئے بنا رہے ہیں۔ وہاں پہنچا تو انہوں نے کہا یہ آپ نے آرمی چیف کے لئے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے کہا سر اس میں ایسا کیا ہے؟ وہ بولے آپ ملک میں مارشل لا لگوانے لگے تھے، ہم نے ذاتی تعلقات استعمال کر کے روکا ہے۔ میں نے کہا سر اگر ہم ایک جلدی شنوائی نہیں کر سکتے تو پھر مارشل لا لگ جائے، فرق کیا ہے؟ بس شاید اس دن آصف کھوسہ نے میرے نام پر سرخ دائرہ لگا لیا۔

پھر جب جنرل مشرف کی ضمانت کا موقع آیا تو میں نے انہیں ضمانت دے دی لیکن جب بعد میں بھی وہ نچلی عدالت سے مفرور ہی رہے تو میں نے ان کی ضمانت منسوخ کر دی اور ایڈیشنل سب انسپیکٹر کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر لیں۔ اس نے جنرل صاحب کو ہاتھ سے پکڑ بھی لیا لیکن باہر سینکڑوں کی تعداد میں کمانڈوز کھڑے تھے، یہ جنرل صاحب کو لے گئے۔ سالانہ ڈنر پر ثاقب نثار صاحب موجود تھے، انہوں نے پوچھا یہ شوکت صدیقی کون ہے۔
کسی نے انہیں بتایا کہ میں ہوں۔ وہ میرے پاس آئے اور بولے، 'اوئے، کیوں سب کی نوکریوں کے پیچھے پڑے ہو؟' میں نے جواب دیا سر 65 سال سے نوکریاں ہی بچا رہے ہیں، اب کوئی فیصلے بھی کر لیں۔ اس دن ثاقب نثار نے بھی سرخ دائرہ لگا دیا۔ اس طرح مستقبل کے دو چیف جسٹس میرے خلاف ہو چکے تھے اور انہی دونوں کی موجودگی میں وہ سب ہوا جو تاریخ کا حصہ ہے۔

شوکت عزیز صدیقی نے بتایا کہ 26 نومبر 2018 کو میں نے چیف جسٹس بننا تھا اور چونکہ وہاں چوائس نہیں ہوتی اور سینیئر ترین جج نے چیف جسٹس بننا ہوتا ہے، اب ثاقب نثار صاحب صاحب اپنے شاگرد عامر فاروق کو جج لے کر آئے تھے اور ثاقب نثار صاحب اقربا پروری میں، دوستوں کو نوازنے میں بہت شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے سوچا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے شاگرد کو کم از کم سینیئر جج تو بنوا جاؤں۔

جسٹس شوکت عزیز نے حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میں وہ تقریر کرتا یا نہ کرتا، 26 نومبر سے ایک ماہ پہلے مجھے کسی نہ کسی صورت معزول کرنا ہی تھا۔ انہوں نے میرے خلاف سرکاری گھر کا ریفرنس چلایا ہوا تھا، فیض آباد دھرنے پر جو میں نے فیصلہ دیا تھا اس پر بھی میرے خلاف دو ریفرنس بنے، دونوں پراکسی تھے۔ ایک جمشید دستی کی طرف سے ریفرنس کروایا گیا اور ایک کلثوم ایڈووکیٹ کی جانب سے۔ ان دو ریفرنسز میں بھی انہوں نے میرے خلاف نوٹس جاری کیا ہوا تھا۔

"21 جولائی کی تقریر میں نے اس لئے کی کہ میں اس کیفیت میں تھا جہاں میں اپنے بڑوں سے ملاقات کے لئے وقت مانگ رہا تھا اور مجھے ٹائم نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب نثار کے پی اے کو کال کی انہوں نے ٹائم نہیں دیا۔ ہمارے چیف جسٹس تھے اپنی مراعات کے ساتھ ریٹائر ہونا چاہتے تھے، انہیں اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی۔

شوکت صدیقی نے کہا میرے پاس چوائس تھی کہ میں خاموش ہو جاتا، چیف جسٹس بھی بن جاتا اور آج شاید سپریم کورٹ بیٹھا ہوتا۔ دوسری طرف یہ تھا کہ میں اس کی پروا کیے بغیر کہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں حق کی گواہی دے جاؤں۔ میرے پاس اور کوئی میڈیم بھی نہیں تھا کہ میں پریس والوں کو بلاؤں یا کوئی بیان دوں۔ حتیٰ کہ میں نے جو آرڈرز دیے اس میں بھی کئی بار یہ نقاط اٹھائے مگر کسی نے توجہ نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے سوانح عمری پڑھنے کا شوق ہے۔ میں اس طرح کی سوانح عمری نہیں چاہتا تھا جس میں آپ ساری زندگی شریک جرم رہیں، ساری مراعات اور فائدے سمیٹنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال انتظار کر کے اپنی صفائی میں کوئی کتاب لکھ چھوڑیں۔

 

https://www.youtube.com/watch?v=uh0kCK7ul94&feature=youtu.be
مزیدخبریں