Get Alerts

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (11 نومبر تا 17 نومبر)

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (11 نومبر تا 17 نومبر)

بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں 500 ارب روپے کی کٹوتی


وفاق نے ڈیزائن، لاگت اور بنیادی مقاصد سے متعلق معلومات کی عدم فراہمی کو جواز بناتے ہوئے کئی منصوبے نکال دیے


ترقیاتی منصوبوں پر کٹ لگنے کے باعث صوبے سے پسماندگی کے خاتمے کا خواب پورا نہ ہونے کاخدشہ بڑھ گیا


وفاق نے بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ پر چھری پھیر دی۔ ترقیاتی بجٹ میں 500 ارب روپے کے منصوبے نکال دیے۔ منصوبے نکالنے کی وجہ تفصیلات کی عدم فراہمی کو قرار دیا گیا ہے۔ نئی حکومت کے اعلانات اور وعدے حسب معمول ہی ثابت ہوئے اور وفاق کی روش ایک بار پھر بلوچستان کو پسماندگی کے اندھیروں میں رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ گذشتہ روز وفاق نے صوبے کے ترقیاتی بجٹ میں سے 500 ارب روپے نکال دیے۔ ابتدائی طور پر ان منصوبوں کو نکالنے کی وجہ منصوبوں کے ڈیزائن، لاگت اور بنیادی مقاصد سے متعلق معلومات کی عدم فراہمی بتائی جارہی ہے۔ جبکہ یہ بھی نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کی تکمیل کی مدت کا بھی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی سینیٹ کی کمیٹی نے بلوچستان کے 3 ہزار منی ڈیمز کو بھی سی پیک منصوبے کا حصہ بنانے کی سفارش کی ہے، تاہم ترقیاتی منصوبوں پر کٹ لگنے سے مالی پسماندگی کے خاتمے کا خواب ادھورا رہنے کا خدشہ مزید بڑھ گیا ہے۔






بلوچستان میں 16 سو سے زائد سرکاری سکول محض کاغذوں میں موجود ہیں، تعلیمی ادارے تمام سہولیات سے محروم ہیں


5 ہزار 3 سو 64 سکولوں میں صرف ایک استاد تعینات ہے، 10 ہزار 55 میں بنیادی سہولیات موجود نہیں ہیں


کوئٹہ 146 سکولز عمارت سے محروم ہیں، ہزاروں گھوسٹ اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں


بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بیشتر سرکاری سکول پینے کا صاف پانی، واش روم کی سہولت، چار دیواری، بجلی، گیس، بلڈنگ سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگا ہواہے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اکیسویں صدی میں بھی تعلیمی پسماندگی کا شکار ہے۔ ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے دعوے کیے مگر سرکاری سکولوں کی تقدیر نہ بدل سکی۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں 13 ہزار 675 سکول موجود ہیں جن میں سے 11 ہزار 747 سکولوں کی عمارتیں موجود ہیں جبکہ 16 سو 25 سکول کاغذوں کی حد تک موجود ہیں۔ 5 ہزار 3 سو 64 سکولوں میں صرف ایک استاد طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ 7 ہزار 9 سو 11 سکولوں میں واش روم سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ 11 ہزار 55 سکولوں میں پانی کی سہولت میسر نہیں جبکہ 5 ہزار 8 سو 40 سکول چار دیواری سے محروم ہیں جو ایک بڑا سیکورٹی رسک ہے۔ دیہی علاقے تو ایک طرف، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 16 ہزار طلبہ طالبات ہیں جن کیلئے 6 سو 37 سکول جن میں سے 146 سکولز کی عمارت ہی موجود نہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایوانوں کی نرم کرسیوں پر براجمان حکمران ہمیشہ دعوے کرتے ہیں کہ تعلیمی صورتحال بہتر ہو رہی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر سال تعلیم کے نام پر اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے مگر یہ بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ حکومت کیے گئے وعدوں کو پورا کرے تاکہ مستقبل کے معمار تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم نہ رہیں۔






کوئٹہ، لورالائی اور قلعہ عبداللہ میں پولیو وائرس کا انکشاف


تینوں اضلاع میں گندے پانی کے نمونوں میں وائرس کی تصدیق، والدین بچوں کو ہر انسداد پولیو مہم میں ویکسین پلوائیں، ڈاکٹر غفار


بلوچستان کے 15 اضلاع میں آج 3 روزہ انسداد پولیو مہم شروع ہو گئی، 5 سال سے کم عمر 13 لاکھ بچوں کو ویکسین پلانے کا ہدف مقرر


کوئٹہ، لورالائی اور قلعہ عبداللہ میں پولیو وائرس کی موجودگی کا انکشاف، تینوں اضلاع میں گندے پانی سے لیے گئے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ صوبے کے 15 اضلاع میں آج سے تین روزہ انسدادِ پولیو مہم شروع ہوگی۔ پولیو ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے کوآرڈینیٹر راشد رزاق کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 15 اضلاع میں تین روزہ انسداد پولیو مہم پیر سے شروع کی جا رہی ہے، جس کے لئے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ پولیو مہم کے دوران کوئٹہ، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ڈیرہ بگٹی، ژوب، زیارت، مستونگ، جعفر آباد، نصیر آباد، لسبیلہ، بولان، جھل مگسی، سبی اور صحبت پور سمیت افغان مہاجر کیمپوں میں 13 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔ راشد رزاق نے والدین سے مہم کے دوران مکمل تعاون کی اپیل کی ہے۔ مہم میں 4 ہزار 9 سو 17 موبائل ٹیمیں فرائض سر انجام دیں گی۔ سکیورٹی کے لئے ایف سی، پولیو اور لیویز کا تعاون بھی حاصل رہے گا۔ حال ہی میں بلوچستان کے تین اضلاع، کوئٹہ، لورالائی اور قلعہ عبداللہ، میں گندے پانی کی سیمپلز لیے گئے تھے جنہیں لیبارٹریز میں ٹیسٹ کیلئے بجھوایا گیا تھا۔ تینوں اضلاع میں گندے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد صوبے میں پولیو مہم میں ایک بار پھر تیزی آ گئی ہے۔






ایرانی سرحد پر فائرنگ سے 2 پاکستانی جاں بحق، پنجگور میں 3 افراد قتل


ایرانی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے حمزہ اللہ خان اور دلاور لقمہ اجل بن گئے، 4 افراد زخمی، پاک افغان سرحد پرخدابخش مارا گیا


کار سوار ملزمان نے چنکان کے رہائشی محمد عالم کو گھر کے قریب اور وشبود میں نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے اکرم کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا


پنجگور برابچہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 3 جبکہ ایرانی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز کار سوار نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چتکان کے رہائشی محمد عالم موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جنہیں گھر کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ دوسرے واقعہ میں وشبود کے علاقے میں ایک شخص محمد اکرم کمسن بچے کے ہمراہ گھر جا رہا تھا کہ کسٹم چیک پوسٹ کے قریب نامعلوم موٹرسائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ دونوں کی لاشیں ہسپتال منتقل کر دی گئیں۔ تاہم دونوں واقعات کی وجوہات معلوم نہ ہو سکیں۔

بلوچستان کے علاقے برابچہ میں پاک افغان بارڈر کے قریب نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے خدا بخش نامی شخص لقمہ اجل بن گیا۔ مقتول کی لاش ہسپتال منتقل کر دی گئی، جسے ضروری کارروائی کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ ادھر پاکستان سے پک اپ وین میں سوار 7 افراد ایران کی جانب جا رہے تھے کہ پنجگور کی تحصیل پروم سے جڑے بارڈر کو عبور کرتے ہوئے ایرانی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بن گئے جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق جبکہ 4 زخمی ہو گئے۔






بلوچستان کا مالی بحران شدید ہو گیا، پولیس کی گاڑیوں کے فیول کا بجٹ بھی ختم


وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی اور مالی بحران کے باعث صوبے کے تمام ادار ے مفلوج ہو کر رہ گئے


بلوچستان کا مالی بحران شدت اختیار کر گیا۔ محکمہ پولیس کی گاڑیوں کے فیول کا بجٹ بھی ختم ہو گیا۔ کوئٹہ شہر میں امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کی گاڑیوں اور ایگل فورس کا گشت بھی نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی اور مالی بحران کے باعث تمام ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ محکمہ پولیس کی گاڑیوں کے فیول کا بجٹ بھی ختم ہو گیا جس کے اثرات محکمہ پولیس پر بھی پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ پولیس نے شہر میں وارداتوں پر کنٹرول اور امن و امان کمیلے موبائل گشت بڑھا دیا تھا، تاہم محکمے کا فیول بجٹ ختم ہو گیا ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ فیول بجٹ ختم ہونے سے آج سے پولیس موبائل کا گشت نہیں ہوگا بلکہ ایگل فورس بھی گشت نہیں کر پائے گی۔ بلوچستان میں مالی بحران کی وجہ سے محکمہ پولیس کے در جنوں منصوبے بھی رک گئے۔ کوئٹہ سوسائٹی پروجیکٹ کی پیش رفت بھی تعطل کا شکار ہے۔ مالی بحران کی وجہ سے کوئٹہ میں گوالمنڈی تھانے اور سول لائن تھانے کی تعمیر کا کام بھی روک لیا گیا، جبکہ پولیس کے جوانوں کی تربیت کا سلسلہ بھی رک گیا۔ ذرائع کے مطابق مالی بحران برقرار رہنے کی صورت میں محکمہ پولیس کو مزید مشکلات کے سامنے کا خدشہ ہے۔