قانون بنا دو، آرمی چیف اپنے چہلم تک وردی سے چمٹا رہے!

قانون بنا دو، آرمی چیف اپنے چہلم تک وردی سے چمٹا رہے!
ہلدی رام بھارت کا ایک بڑا برانڈ ہے جیسے میکڈونلڈ امریکی برانڈ ہے۔ دنیا کے 80 ممالک میں اس کی شاخیں ہیں۔ اس کی بنیاد مسٹر ہلدی رام نے 1937 میں ایک چھوٹی سی دکان کی شکل میں راجھستان میں رکھی۔ شروعات بھجیا بیچنے سے ہوئی۔ اب سنیکس کے علاوہ ہر قسم کی مٹھائیاں اس کی مصنوعات ہیں۔

اجی گولی ماریں ہلدی رام کو۔ ہمیں تو کوئی مسلمانوں والی اور پاکستانی مثال دیجئے۔

اچھا بھئی یہ سیور پلاؤ کو دیکھ لو۔ 80 کی دہائی میں ایک دیگ سے شروعات ہوئی۔ آج پورے پاکستان میں شاخیں ہیں۔ تیسری نسل کاروبار کو آگے بڑھا رہی ہے۔ جاوید نہاری، حاجی ربڑی، بندو خان، شان مصالحہ، یا بار بی کیو ٹونائٹ کو دیکھ لیجئے۔ ان سب کا آغاز نقطے کے برابر حجم سے ہوا جو اب آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔

پر نہ ہوئی ترقی تو اس پاکستان میں۔ ترقی کیا خاک ہوتی، الٹا حکمرانوں (اس سے مراد فوجی قیادت ہرگز نہیں۔ ہماری پاک فوج 10 ہزار فیصد نیوٹرل اور اے پولیٹیکل ہے اور دن بہ دن اس کی نیوٹریلیٹی اور اے پولیٹیکل ہونے والا کاروبار ہلدی رام یا سیور پلاؤ کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے!) نے آدھے سے زیادہ ملک (نئی نسل شاید مشرقی پاکستان سے ناواقف ہو) گنوا دیا۔ باقی ماندہ انواع و اقسام کے قبضہ گروپوں کے قبضے میں ہے مثلاً بلوچستان میں تو آپ ٹوورازم کی خاطر بھی نہیں جا سکتے۔ ایسا ہی حال سوات یا ناردرن ایریاز کا ہے۔ خریداری کے لئے آبپارہ جانا ہو تو لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز سے ویزہ لینا پڑتا ہے۔ فیض آباد زندہ دلان دھرنا بن چکا ہے۔ آج کل تبدیلی کے نام پر فرلانگ مارچ نامی عفریت کی وجہ سے مفلوج ہے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ 75 برسوں میں ایک رکشے والا جائز طریقے سے محنت مزدوری کرتے کرتے بہت بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کا مالک بن جاتا ہے مگر پاکستان ریلویز اور پی آئی اے جو کسی زمانے میں اپنی مثال آپ ہوا کرتے تھے، تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ ایمریٹس ایئر لائن کا باپ پی آئی اے تھا۔ اب دیکھیں باپ اور بیٹے کے لیول میں فرق۔ پی آئی اے سے بہتر تو بائیکیا کی پھٹ پھٹی ہے۔

75 برس میں کیا کیا ہم نے؟ ایک سوئی تک تو بنا نہ سکے۔ وہ بھی چائنہ سے منگوانی پڑتی ہے۔ ہاں فخر سے یہ بتلایا جاتا ہے کہ ایٹم بم بنایا۔ اگر نہ بناتے تو بھارت ہڑپ کر جاتا۔ یہ کوئی نہیں بتلاتا کہ بھارت تو 1974 میں ہی نیوکلیئر پاور بن چکا تھا۔ اگر ہڑپ کرنا ہوتا تو کر لیتا اگلے دو چار دن میں۔ 1998 تک کس بات کا انتظار کرتا رہا؟ پاکستان تو 98 میں بنا نیوکلیئر پاور۔

کوئی یہ نہیں بتاتا کہ بھارت نے ہم پر کبھی حملہ نہیں کیا۔ 65 کی جنگ ہم نے کشمیر آزاد کرانے کے لئے چھیڑی اور عبرت ناک شکست کھائی۔ بنگالی بھائیوں کے حقوق غضب کرتے رہے 47 سے۔ کب تک سہتے ہمارے ظلم۔ آواز بلند کی اور 71 کی جنگ میں آدھا سے زیادہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب وہی فلم دوبارہ بلوچستان میں چل رہی ہے۔ ریاست کی رٹ تو اسلام آباد تک میں نظر نہیں آتی۔

اب حالت یہ ہے کہ پینے کو پانی نہیں۔ پہننے کو کپڑے نہیں۔ رہنے کو گھر نہیں۔ بیمار ہو جائیں تو ہسپتال نہیں۔ زلزلہ آ جائے تو باہر والے مدد کرتے ہیں۔ سیلاب آ جائے تو باہر والے ہی کچھ کریں تو کریں۔ کاش یہ ایٹم بم ان مسائل کو بھی حل کر دیتا۔ استعمال کریں تو مریں۔ نہ کریں تو مُردوں سے بدتر جیئیں!

75 برسوں میں کئی بچوں کی شادیاں کی ہوں گی خوب چھان پھٹک کے۔ لڑکے کا خاندان کیسا ہے؟ نشہ تو نہیں کرتا؟ جوا تو نہیں کھیلتا؟ ذہنی توازن تو ٹھیک ہے نا؟ کماتا بھی ہے کہ نہیں؟ جرائم پیشہ تو نہیں؟ سزا یافتہ تو نہیں؟ اندھا، لنگڑا لولا، کانا، کُبڑا تو نہیں؟ غرضیکہ سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ!

جب ہر جانب سے تسلی ہوتی ہے تب جا کر رشتہ طے پاتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی حاسد ہوائی اڑا دے کہ لڑکا نشئی ہے یا پہلے سے شادی شدہ ہے یا کردار کا ٹھیک نہیں یا نامرد ہے تو بنا تحقیق رشتہ کینسل۔ لیکن حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہم کسی قسم کی چھان پھٹک کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ 75 سالوں کے تجربات نے ثابت کر دیا کہ یہ بھلے کسی بھی پارٹی کے ہوں، سب کے سب چور ہیں، ڈاکو ہیں، لٹیرے ہیں، منافق ہیں، وعدہ خلاف ہیں، بے شرم اور بے غیرت ہیں۔ ان کا مقصد عوام کی خدمت نہیں، اپنی جیب بھرنا ہے۔ ایک ہستی ہمارے پیارے نبیﷺ کی تھی کہ دشمن بھی مانتا تھا صادق و امین ہیں۔ سچ بولتے ہیں۔ بدترین دشمن تک ان کے اخلاق کا گرویدہ ہے۔ اور پھر ہمارے لیڈر ہیں۔۔عدالت نے قرار دے بھی دیا کہ صادق و امین نہیں۔ پھر بھی انہی کے آگے دم ہلاتے ہیں۔ سیاست دانوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ کس طرح جھوٹی خبروں یا گالم گلوچ سے مخالف پارٹی کو نیچا دکھایا جائے۔ ایسے لوگوں نے کیا خاک قانون سازی کرنی ہے؟ انہیں تو الزام تراشی اور جھوٹ سازی کا ہار پہنانا چاہئیے۔

لیکن ہم پھر انہی چوروں، لٹیروں، منافقوں اور موقع پرستوں کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ رشتے میں تو بس دو ہی زندگیوں کا معاملہ ہوتا ہے، پر ادھر کئی نسلوں کا مستقبل ہم خاک میں ملا دیتے ہیں۔ نہیں سیکھتے ماضی سے۔ الٹا ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کرنا فخر سمجھتے ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث ہوں۔ تازہ ترین مثال ہے آرمی چیف کی تعیناتی۔

ابھی موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازت میں پورا ایک سال باقی تھا کہ پاکستان کے اس انگریزی اخبار، جس کی داغ بیل قائد اعظم محمد علی جناح نے ڈالی تھی یعنی ڈان نے یہ ٹنٹہ چھیڑ دیا کہ کیا یہ ایک اور ایکس ٹینشن لیں گے یا نہیں؟ اگر لیں گے تو کتنے برس کی؟ اور نہ لی تو نیا کون ہوگا؟ کون لگائے گا؟

اب 75 برسوں میں یہی کمی رہ گئی تھی کہ ڈان ایسا قابل فخر انگریزی اخبار کسی یوتھیے یوٹیوبئے کے لیول پر آ جائے۔ الحمد للہ آ ہی گیا۔ اسے کہتے ہیں ترقی!

ایسا مسخرہ پن دنیا کے ترقی یافتہ تو چھوڑ، پسماندہ ترین ملکوں میں بھی نہیں ہوتا۔ کاغذ آتا ہے اور منٹوں میں دستخط ہو جاتے ہیں۔ مگر ادھر یہ زندگی اور موت کا معاملہ بنا ہوا ہے۔ لاکھوں افراد سیلاب کی وجہ سے سب کچھ لٹا بیٹھے۔ اب کھلے آسمان تلے ہیں۔ بلوچستان فوجی آپریشن کی زد میں ہے۔ لوگ غائب ہو رہے ہیں۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں طالبان دوبارہ زور پکڑ چکے ہیں۔ ڈالر اب 300 کا ہدف طے کرنے کے لئے پر تول رہا ہے۔ معیشت کا ستیاناس ہو چکا ہے۔ یہ نام نہاد اسلام کا قلعہ ساری دنیا کا مقروض ہے۔ مگر کوئی کیونکر ان مسائل کی جانب متوجہ ہو؟ ہمارا اصل مسئلہ تو آرمی چیف کی تعیناتی یا ایکس ٹینشن ہے۔ لیکن اس مسئلے کا تو آسان سا حل ہے۔ اس سے جان چھڑا کر کام میں بھی دیدے جمائے جا سکتے ہیں۔ قانون میں ترمیم کر دو جس کی رو سے آرمی چیف اپنے چہلم تک وردی سے چمٹا رہے!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔