پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے 11 اکتوبر کے المناک اور دلخراش واقعہ، جس میں 21 معصوم کوئلہ مزدوروں کا قتل عام ہوا تھا، کے خلاف دکی بازار میں احتجاجی جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ جلسے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی مرکزی سیکرٹری نواب ایاز خان جوگیزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باقی دنیا اپنے بچوں کی خوشحالی اور آسودہ مستقبل کے لئے سوچ اور جدوجہد کر رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم پشتون اپنے بچوں کی زندگی اور روٹی کیلئے پریشان ہیں اور بھیک مانگ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں عموماً اور ہمارے ملک میں خصوصاً مزدوروں کیلئے حفاظتی اقدامات اور سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئلہ کان کنی سب سے سخت ترین اور صحت کے حوالے سے بدترین مزدوری ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے بچے یہ مزدوری کرتے ہوئے بھی محفوظ نہیں۔
نواب ایاز خان نے کہا کہ مزدوروں کا یہ قتل عام اس علاقے میں ہوا جہاں کوئلہ کان مالکان فی ٹن 230 روپے سکیورٹی ٹیکس ایف سی کو ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فورسز کی موجودگی کے باوجود سنجاوی اور اردگرد کے علاقوں سے اب سبزی اور فروٹ کے باغات سے بھی بھتے وصول کیے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ 75 فیصد سے زیادہ بجٹ دفاع کے نام پر دینے والے عوام کوئلے کی سکیورٹی کے نام پر بھی فی ٹن کے حساب سے پیسے ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرکز میں ہم پنجاب اور صوبے میں ہم بلوچ کے ماتحت ہیں، اب جب اس صوبے میں پشتون مرتا ہے تو ان کا حساب بھی بلوچوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کی وجہ سے کوئلہ کانوں پر کام بند ہوا ہے لیکن مزدور اپنے بقایا جات کیلئے رکے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ٹھیکیداروں سے کہا کہ مزدوروں کے بقایا جات فوری ادا کریں تاکہ وہ اپنے خاندانوں سے ملنے کیلئے جا سکیں۔
جلسے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیارت وال نے خطاب کرتے ہوئے 21 بے گناہ مزدوروں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب سے ایف سی آئی اور کوئلہ پر سکیورٹی کے نام پر ٹیکس عائد کیا ہے تب سے بد امنی، اغوا اور بھتہ خوری کی وارداتیں شروع ہوئی ہیں۔ زیارت وال نے کہا کہ معدنیات کا کنٹرول محکمہ معدنیات کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ ایف سی یا کسی اور فورس کے پاس۔
انہوں نے سوال کیا کہ فورسز کے پاس جدید ٹکنالوجی اور ساز و سامان ہوتے ہوئے اردگرد تنہائی کے باوجود دہشت گرد کس طرح مزدوروں کے کیمپ تک پہنچ کر آرام سے واردات کر کے غائب ہو گئے۔ زیارت وال نے مطالبہ کیا کہ زور و زر اور دھاندلی کی پیداوار فارم 47 والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر مستعفی ہو کر نئے صاف و شفاف انتخابات کروائیں۔ زیارت وال نے اس دہشت گردی کے واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ایف آئی آرز درج کرنے کی پرزور مذمت کی اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد ایف آئی آرز کو واپس لیا جائے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات طالعمند خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات دینے سے دہشت گردی کے واقعات اور امن و مان کے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ ایف سی صوبے سے پولیس اختیارات اور امن و امان کی مد میں صوبائی حکومت سے اربوں روپے وصول کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ کوئلہ مالکان سے فی ٹن 230 روپے سکیورٹی کے نام پر ٹیکس لیتی ہے جو سالانہ کروڑوں روپے بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود آئے روز مزدوروں کو قتل کیا جا رہا ہے، دن دیہاڑے کوئلہ سے بھرے ٹرک جلائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس دہرے انتظامی نظام نے پولیس و سول انتظامیہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے جس نے امن و امان کی صورت حال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ایف سی امن و امان کو قائم کرنے کے بجائے وزن کانٹے لگا کر کوئلے کے ٹرکوں کے تول اور دیگر کاموں میں مداخلت کرتے ہوئے مسئلے کے حال کے بجائے خود مسئلہ بن رہی ہے، اس لئے اس سے پولیس پاور واپس لے کر کانوں اور چیک پوسٹوں سے ہٹائی جائی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انگریز دور سے لے کر آج تک سرکاری خصوصاً سکیورٹی افسروں نے جرگہ کے نام پر اپنے کاسہ لیسوں کے دربار کو جرگہ کا نام دے کر اس اہم ادارے کا تقدس اور نمائندہ حیثیت پامال کر دی ہے۔ انہوں نے پشتونوں پر زور دیا کہ اپنے جرگہ کا تقدس بحال کریں۔
سابق سینیٹر اور پشتونخوا میپ کے صوبائی سیکرٹری نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت کا کام صرف مذمت کرنا نہیں بلکہ امن و امان برقرار رکھنا اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت نے مجرمان کی گرفتاری کے بجائے ایف آئی آر اس خونی سانحہ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف درج کی۔
جلسے سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی سیکرٹری سردار حبیب الرحمٰن دوم نے بھی خطاب کیا۔ جلسے نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے سانحہ 11 اکتوبر کے مجرموں کی گرفتاری، ایف سی کی واپسی، مظاہرین کے خلاف ایف آئی آرز کی واپسی اور ملک میں نئے صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا۔