Get Alerts

گوریلا؛ بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو (آخری حصہ)

آرمی کی سفاکانہ کارروائیوں میں اب بہت شدت آ گئی تھی، شہباز نے کہا، 'بہت ہولناک۔ قتل عام۔ فاقہ کشی۔ بموں کی بارشیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کی موت کا منظر دیکھنا جنہیں آپ نے محنت سے پالا اور تربیت دی ہو'۔ لیکن اس کے باوجود مقصد کیلئے کبھی بھی ان کے دل میں شکوک پیدا نہیں ہوئے۔

گوریلا؛ بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو (آخری حصہ)

(زیر مطالعہ مضمون معروف برطانوی ناول نگار وی۔ ایس۔ نائپال کی کتاب 'Beyond Belief' کے ایک باب 'Guerilla' کا ترجمہ ہے جو زبیر دہانی نے کیا ہے۔ اس باب کا موضوع بحث بلوچستان کی 1970 کی دہائی کی صورت حال ہے۔ اس باب کا مرکزی کردار شہباز ہے۔ شہباز ایک فرضی نام ہے۔ یہ فرضی نام احمد رشید کا ہے جو ایک معروف صحافی ہیں اور 'طالبان' و 'جہادی' نامی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف ہیں۔)

پہلا حصہ یہاں پڑھیں؛ گوریلا؛ بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو (پہلا حصہ)

شہباز ایک زندہ دل انسان تھا۔ پاکستان میں یہ کہنا عام ہے کہ پاکستانی دنیا بھر میں غیر مستقل مزاج ہونے کے باعث، اپنے لوگوں سے تعصب برتتے ہیں۔ لیکن شہباز بالکل مختلف تھا، وہ ہر وقت پاکستانیوں یا دیگر کو سراہنے میں پیش پیش رہتا تھا۔ انگلینڈ کے قیام اور پبلک سکول کی تعلیم نے اس کی شخصیت میں یہ خصوصیات پیدا کر دی تھیں کہ اس کے مطابق دیگر لوگوں کے خیالات کو سننے اور قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے اس نے لندن میں ایک افریقی کی قیادت قبول کر لی تھی، اب اس نے بلوچستان میں قبائلی سربراہ کو اپنا کمانڈر مان لیا تھا۔

قبائلی سربراہ پڑھا لکھا نہیں تھا، وہ ایک خانہ بدوش خاندان کا چرواہا تھا۔ وہ 1963 میں بلوچستان کی آزادی کے لیے پاکستانی ملٹری گورنمنٹ کے خلاف لڑ چکا تھا۔ شہباز ان کی اعتدال پسندی، ان کی عاجزی، ان کی گفتگو اور ان کے اطمینان سے سحر زدہ تھا۔ اس قبائلی سربراہ کو اَن پڑھوں کے کردار اور مزاج کی حقیقی جبلت سے بخوبی واقفیت تھی، اور ہر طرح کے موقعوں میں وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ لوگوں سے کیسے بات کی جائے۔ وہ ایک فطری لیڈر تھا، شہباز اور دوسرے لوگ امید کر رہے تھے کہ وہ بلوچوں، بلکہ پاکستان کا ماؤ یا ھو چی مِن بن کر اُبھرے گا۔

وہاں پر باہر سے آیا ہوا ایک اور لڑکا تھا، جسے شہباز بہت سراہتا تھا اور اس کے ساتھ اس کے تعلقات بہت قریبی ہو گئے تھے۔ یہ کراچی کا ایک مسیحی لڑکا تھا جو ایک ایئر فورس آفیسر کا بیٹا تھا۔ وہ لندن گروپ میں سے تھا؛ وہ اپنی اکاؤنٹنٹ کی پڑھائی انقلاب کے لئے چھوڑ کر آیا ہوا تھا۔ وہ شہباز کی طرح جذباتی تھا، غربت اور ناانصافی دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوتا تھا۔ اس کی بیش تر زندگی ایک مسیحی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اجنبیوں جیسی گزری تھی اور ہو سکتا ہے (یہ موازنہ شہباز کا نہیں تھا) اس کی اجنبیت بالکل ویسی ہی تھی جیسے شہباز نے کئی سال تک انگلینڈ میں رہ کر محسوس کی تھی۔ وہ بہت خوش مزاج لڑکا تھا۔ شہباز کو اب بھی اس کے زوردار قہقہے یاد تھے۔ شہباز کو یاد تھا کہ وہ دُبلا پتلا، رنگ میں کالا بالکل بنگالیوں جیسا تھا۔

شہباز جب اس لڑکے کی باتیں کر رہا تھا تو اس کی آنکھیں نم اور آواز دھیمی پڑ گئی تھی۔ یہ لڑکا بلوچستان میں آنے کے 6 سال بعد بغاوت کے تیسرے سال مارا گیا تھا۔ وہ قریب کے ایک چھوٹے قصبے میں کسی بھروسہ مند شخص سے ملنے گیا ہوا تھا، اور دغا بازی سے آرمی کے ہاتھوں ایک قبائلی نمائندے کے ہمراہ پکڑا گیا تھا۔ آرمی نے اُن کے پکڑے جانے کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا، اس لیے باغیوں کو اُس وقت اس کی خبر نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں انہیں پتہ چلا کہ اُس کو کئی ہفتوں کی پوچھ گچھ اور ٹارچر کے بعد ایک ہیلی کاپٹر سے پھینکا گیا تھا۔ ان سب کو بہت اذیت ہوئی تھی کہ انہیں اس کے مرنے کی خبر تاخیر سے ملی تھی۔ شہباز جو کہ بہت افسردگی کے ساتھ اس لڑکے کے بارے میں بتاتا رہا، اس نے بعد میں اپنی فیملی سے دوبارہ ملنے کا سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

تین سال کی تیاریوں کے بعد انقلاب کی شروعات پورے بلوچستان کے بیابانوں میں درجنوں بغاوتوں سے شروع ہوئی۔ اور معجزاتی طور پر (انقلابی خیالات کے ساتھ کسی کا جذباتی طور پر جُڑ جانا) جس علاقے میں شہباز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہا تھا (جس میں کافی مشکلات درپیش تھیں)، ٹیکنیکل گوریلا زبان میں وہ علاقہ آزاد ہو گیا تھا۔ تمام انقلابی لیڈر قبائلی سربراہ تھے، بالکل ویسے ہی قابل جس سے شہباز بہت متاثر، اور سراہتا تھا جو کہ بعد میں سب گوریلا کمانڈر بن گئے تھے۔ لڑائی چاروں اطراف پھیلی ہوئی تھی، قبائل اور برادریوں کو مختلف حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ جس قبیلے میں شہباز تھا اس میں 5، 6 علیحدہ گروپ تھے۔ ان گروپوں میں سے ایک کیمپ کو وہ چلا رہا تھا۔ اس کے کیمپ میں 50 سے 200 لڑاکو تھے۔ اس کا کام لڑنا نہیں تھا۔ اس کا کام جنگجوؤں کو اپنی فیلڈ میں تربیت دینا تھا، جن میں ان کو طبعی ہنر سکھانا، بحث سکھانا، اور کاشت کاری اور مویشیوں کے مسائل سے نمٹنا شامل تھا۔

لیکن لڑائی کے دو اطراف تھے۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آ جانے کے بعد، یہ جلد ہی واضح ہو گیا تھا کہ پاکستانی ریاست بھٹو کی حکومت میں، بلوچوں اور اُن کے قبائلی سربراہوں کو بہت شدت سے کُچلنے لگی ہے۔ ایک موقع پر شہباز کو ایسا لگا کہ بلوچستان میں لاکھوں فوجی گُھس آئے ہیں۔ لندن میں ساؤتھ افریقی نے لِن پیاؤ کے نام اور ان کے چینی انقلابی نظریہ سے سب کی نظروں کو خِیرہ کر دیا تھا، کہ دیہی علاقوں سے ہی شہروں پر چھایا جا سکتا ہے۔ جس بات کی اُنہوں نے توقع نہیں کی تھی، جس چیز کے لئے کوئی مارکسی قاعدہ یا انقلابی کتاب انہیں آمادہ نہیں کیے ہوئے تھی وہ تھی ایک بہت ہی تربیت یافتہ پیشہ ور آرمی جو حد سے زیادہ طاقت کے ساتھ خانہ بدوشوں کے کمزور معاشرتی ڈھانچے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے نبرد آزما ہو۔

بلوچستان کے ان 'جنگی دیوتاؤں' کو پہلی بار دیکھنے پر شہباز کو شبہ یا حیرانگی ہوئی تھی، جو بلاوجہ نہیں تھی۔ ماؤ کے خیالات سے متفق ہو کر وہ جو توقعات کر بیٹھا تھا، سارا کچھ ان کے برعکس غلط ثابت ہوا۔ درحقیقت یہ خانہ بدوش نہ مارکسی لٹریچر کے مزدور تھے اور نا ہی ہاری، وہ مستحکم نظریاتی نہیں تھے۔ یہ خانہ بدوش سیلانی تھے؛ وہ روشنی میں سفر کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ آسانی سے کُچلے جا سکتے تھے۔

شہباز نے یہ داستان سناتے وقت، اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ میں نے محسوس کیا کہ خانہ بدوشوں کو کُچلنے کے متعلق بہت کچھ سننا ابھی باقی ہے، اور جب کچھ دن بعد میں اس سے ملنے گیا تو میں نے اس سے پوچھا۔

اس نے بتایا، 'لوگ چاروں طرف مر رہے تھے۔ وہ اپنے خاندانوں اور ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ خانہ بدوشوں کی معشیت بہت ہی کمزور ہوتی ہے۔ پوری معشیت کا انحصار مویشیوں پر ہوتا ہے۔ آپ کو صرف جانوروں کو ختم کرنا ہوتا ہے جو کہ انہوں نے کر دیا۔ جانوروں کو نشانہ بنایا گیا، اس سفاکانہ کارروائی میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑوں اور بکریوں کو روندا گیا۔ ایسی کارروائی کرنے کے بعد لوگوں کا زندہ رہنا ناممکن ہو جاتا ہے'۔

آرمی گرمیوں میں پیش قدمی نہیں کرتی تھی۔ گرمی کی شدت بہت زیادہ تھی۔ سردیوں میں آرمی نے پیش قدمی کی، اور اگلی سردی کے آخر میں بلوچستان میں انقلاب کم و بیش ختم ہو گیا۔ لندن میں وہ تمام پارٹیاں اور عیش و عیاشی، وہ تمام مقدس انقلابی متن پر سیکسی لاطینی لڑکیوں سے بحث و مباحثے، بلوچستان میں وہ تمام تعلیم و تربیت اور تیاریاں، جلد ہی اختتام پذیر ہوئیں۔

شہباز کچھ آزاد علاقوں میں سے ایک علاقے کو کچھ وقت تک سنبھال رہا تھا۔ تھوڑے عرصے میں انتظامی امور وہ خود سنبھالنے لگا۔ ساؤتھ افریقی حقیقی لڑائی شروع ہونے کے تھوڑے ہی عرصے بعد واپس چلا گیا تھا۔ شہباز کو اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ اسے اب بھی ساؤتھ افریقی پر بھروسہ تھا، اور وہ جانتا تھا کہ ساوتھ افریقی، یورپ میں ضروری کام کے سلسلے میں جا رہا ہے؛ فنڈ نکلوانے (روس، جرمنی، اور انڈیا سے، یہ شہباز نے نہیں بتایا تھا)، اور بلوچستان میں انقلابیوں کے مؤقف کو لیفٹ ونگ پریس میں اُچھالنے کے سلسلے میں۔ ساؤتھ افریقی رابطے میں تو رہا، لیکن وہ واپس کبھی نہیں آیا۔

بلوچستان کو ملک سے باہر جتنی بھی پبلسٹی ملی تھی وہ ساؤتھ افریقی کی بدولت تھی، لیکن یہ بہت تھوڑی تھی۔ بلوچستان کبھی بھی ایک بڑے بین الاقوامی سنسنی خیز مقدمے کے طور پر دنیا کے سامنے نہیں آ سکا۔ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ انقلاب کا جلد کمزور پڑ جانا ہو۔ اور شاید دوسری وجہ بغاوت اور فوجی آپریشن کے بارے میں میڈیا کی خاموشی تھی۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا؛ کسی بھی پاکستانی اخبار نے کوئی چیز نہیں چھاپی، جن صحافیوں نے بلوچستان کے متعلق لکھا وہ جیل بھیج دیے گئے۔ شہروں کے انقلابیوں نے خفیہ طور پر تھوڑی سی خبریں 'جبل' (پہاڑ) نامی جریدے میں جس کا نام بڑا دلچسپ تھا، شائع کیں۔ یہ دستی تحریر میں فوٹو کاپی کرا کر مہینے میں ایک بار شائع ہوتا تھا۔ یہ ایک صدائے بے آواز تھی جس سے تحریک کا لوہا نہیں منوایا جا سکتا تھا۔

دوسرے موسم سرما کے آخر کے فوجی آپریشنوں کے بعد بلوچ قبائلی رہنما نے، جس کو شہباز اور دوسروں نے بلوچی انقلاب کا ممکنہ ماؤ یا ھو چی مِن تصور کیا تھا، بلوچستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے ساتھیوں اور لاوارث خانہ بدوشوں کو لے کر سرحد پار افغانستان کی جانب ایک طویل غیر معمولی سفر کا فیصلہ کیا۔ ایک موقع پر خانہ بدوش پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً 25 ہزار ہو گئی تھی۔ شہباز نے بتایا، ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے، جنہیں سہارا دینے کیلئے ان کے مرد زندہ نہیں رہے تھے۔

تیسرے موسم سرما کے اس واقعہ کے بعد جس میں، کراچی سے آیا ہوا مسیحی لڑکا، جو ہمیشہ 'مسکراتا اور زوردار قہقہے مارتا تھا'، اور غربت کو دیکھ کر روہنسا ہو جاتا، اور جو چارٹرڈ اکاونٹنٹ بننے کے لئے لندن میں پڑھ رہا تھا، کو گرفتار کر کے اذیتیں دینے کے بعد ایک ہیلی کاپٹر سے پھینک دیا گیا۔

آرمی کی سفاکانہ کارروائیوں میں اب بہت شدت آ گئی تھی، شہباز نے کہا، 'بہت ہولناک۔ قتل عام۔ فاقہ کشی۔ بموں کی بارشیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کی موت کا منظر دیکھنا جنہیں آپ نے محنت سے پالا اور تربیت دی ہو'۔ لیکن اس کے باوجود مقصد کیلئے کبھی بھی ان کے دل میں شکوک پیدا نہیں ہوئے۔ 'نہیں۔ مصیبت و آفت سے میری عقل و دانش میں اضافہ ہوا'۔

ان کو فیصلہ کرنا تھا کہ غیر جنگجو لوگوں کا کیا کیا جائے، آیا ان کو شمال کی جانب افغانستان بھیجا جائے یا مشرق کی جانب سندھ بھیجا جائے، یا انہیں وہیں پر ہی رکھا جائے۔ یہ ضروری تھا کہ ایک آزاد اور کم آبادی پر مشتمل علاقے سے سب لوگوں کو نہ بھیجا جائے۔

آرمی نے سارے راستوں پر پہرے لگا دیے تھے۔ ان تمام گوریلا لڑائیوں کی غیر معمولی منصوبہ بندی کے بعد، جہاں خور ونوش کا سامان شہروں سے سمگل کر کے اندر لانا پڑتا تھا، شہباز کو اس آزاد علاقے میں تقریباً گھیر لیا گیا تھا۔

شہباز کے گرد ہونے والے حادثات اور ناکامی کے باوجود، اب بھی وہ پُرعزم اور پُرجوش تھا، وہ اب بھی انقلاب کو اپنی ذاتی ترقی و تکمیل کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا، 'میرے لئے یہ بہت ہی تخلیقی دور تھا'۔

گندم کی ضرورت انہیں سب سے زیادہ تھی۔ بلوچستان میں دکانداری کا پیشہ ایک زمانہ میں ہندو کیا کرتے تھے، لیکن پارٹیشن کے بعد وہ تمام قصبوں سے نکل گئے تھے۔ قبائلیوں نے یہ کام سنبھال لیا تھا، اور وہ باغیوں کے قریبی یا دور کے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے اونٹوں کے کاروانوں کا انتظام کیا تھا۔ اونٹ کے ان کاروانوں کو، کبھی کبھار گوریلوں کی نگرانی میں، بہت سی چوکیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس دوران بہت سے خوفناک حادثات پیش آتے تھے، خاص کر سردیوں میں آرمی کے حملوں کے وقت۔ آرمی گوریلوں کو پکڑ کر لے جاتی تھی؛ دکانداروں کو لے جاتی تھی؛ خورونوش کا قیمتی سامان قبضے میں لے لیتی تھی۔ ایسا بھی وقت آتا کہ شہباز اور دوسرے لوگ دو دنوں میں ایک بار روٹی کھاتے تھے۔ وہ روٹیوں کے چند نوالے اپنی جیب میں لئے سفر کرتے تھے؛ اسی پر گزارا کرتے تھے۔

ایک موسم سرما میں آرمی نے پہاڑوں میں پیش قدمی کی، جہاں شہباز اور ان کا گروپ موجود تھا۔ ان کو وہاں سے جلدی نکلنا تھا۔ آرمی کی نظروں میں آئے بغیر جو کہ ہیلی کاپٹروں کا استعمال کر رہے تھے، انہوں نے راتوں کو سفر کیا۔ وہ بہت سا خور و نوش کا سامان جس میں بہت سے دنوں کی خوراک ذخیرہ تھی، ساتھ لے کر نکل رہے تھے۔ وہ کسی صورت میں بھی یہ راشن گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ پورے ایک دن تک شہباز اور اس کا گروپ ایک بہت ہی چھوٹی خانہ بدوش آبادی میں چھپے رہے۔ انہیں کھانا کھلایا گیا اور اچھی طرح ان کی دیکھ بھال کی گئی، اور رات میں وہ وہاں سے نکل گئے۔ آرمی اس وقت صرف ہیلی کاپٹروں کا استعمال نہیں کر رہی تھی؛ ٹریکر (پا شناس)، آرمی سکاؤٹ اور ماہر مقامی بلوچ جو قدموں کے نشانات کے ذریعے کوئی بھی جگہ ڈھونڈ سکتے تھے، ان کے ہمراہ تھے۔ ان ماہروں کی مدد سے ‎ آرمی اس چھوٹی آبادی تک پہنچ گئی۔ وہاں انہوں نے سوالات پوچھنا شروع کیے۔ کل رات یہاں پر کون لوگ ٹھہرے ہوئے تھے؟ تمہارے گھروں کے باہر یہ قدموں کے سارے نشانات کن کے ہیں؟ آخرکار اس چھوٹی سی آبادی کے سب ہی لوگوں کو بڑی سفاکی سے قتل کر دیا گیا، جن میں کل 16 لوگ تھے۔ شہباز یہ خبر سن کر کئی ہفتوں تک ڈپریشن میں رہا۔ اس کے ساتھی بلوچ اس سے بہت زیادہ حوصلہ مند تھے؛ انہوں نے اس کو پُرسکون رکھا ہوا تھا۔

شہباز نے کہا، 'کیونکہ خانہ بدوشوں کی زندگی بہت سخت ہوتی ہے، اس لئے ان میں مصیبت اور مشکلات سہنے کی گنجائش بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ صبر اور برداشت میں نے ان ہی سے سیکھی ہے'۔

تین سال بعد – یونان کے بے شمار المیے اور پاکستان میں رونما ہونے والے انتقامی المیے بالکل ایک جیسے ہی تھے اور بڑے زور و شور پر تھے۔ بھٹو صاحب، جنہوں نے پاکستانی آرمی کو بلوچوں کے خلاف بے لگام چھوڑ دیا تھا، کو ایک جنرل نے معزول کر دیا اور کارروائیوں کے بعد اس کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ اسی جنرل نے بعد میں معافی کے اعلانات کیے، اور بلوچستان میں لڑائی ختم ہو گئی۔

شہباز اب دوسرے پناہ گزینوں کے ساتھ افغانستان میں تھا۔ بلوچستان سے افغانستان وہ پہاڑوں کے راستے پیدل گیا تھا۔ جنوبی افغانستان میں پناہ گزینوں کے دو کیمپ تھے۔ وہ قبائلی سربراہ، جس نے پناہ گزینوں کے افغانستان جانے کی راہنمائی کی تھی، اب تک وہیں پر تھا۔ وہ اب بھی باعمل اور بااثر شخص تھا۔ انقلابی تحریک کے ان لوگوں کے پاس کابل میں کچھ فلیٹ تھے۔ شہباز افغانستان میں رہ کر کئی ہفتوں تک پناہ گزین کیمپوں اور کابل میں فلیٹوں کے درمیان آتا جاتا رہا۔

کابل میں ہی شہباز کی ملاقات 6 سال بعد ساؤتھ افریقی سے دوبارہ ہوئی۔ ایسے تمام انقلابی جو زندہ بچ گئے تھے یا اب بھی انقلاب سے دلچسپی رکھتے تھے، تحریک کے مستقبل کے متعلق باتیں کرنے کے لئے (روس کی موجودگی میں وہ وہاں محفوظ تھے) کابل میں ملاقاتیں کرتے تھے۔ شہباز اور اس کے کچھ اور ساتھی بھی ساؤتھ افریقی سے بات کرنا چاہتے تھے کہ 6 سال تک وہ یورپ میں کیا کرتا رہا، اور وہاں سے اکٹھی کی گئی رقم کے متعلق پوچھنا چاہتے تھے۔

ان کے درمیان اعصاب شکن بحث و مباحثے ہوئے، 'بڑی لڑائیاں ہوئیں'۔ آخر میں شہباز اور ساؤتھ افریقی نے ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیا۔ ساؤتھ افریقی نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہباز اور اس کے کچھ ساتھی غدار ہیں؛ انہوں نے انقلاب سے غداری کی ہے اور انہیں قتل کرنا چاہیے۔ یہ سن کر شہباز کو بڑا صدمہ ہوا۔ بلکہ اُسے اور بھی بڑا دھچکا اس وقت لگا جب قبائلی رہنما، جس کو اس نے مستقبل کا ماؤ یا ھو چی مِن تصور کیا تھا، نے بلا کر بتایا کہ اب وہ شہباز کی حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتا: اب ساؤتھ افریقی شہباز کو زہر دینے کی کوشش کر سکتا ہے۔ شہباز نے سوچا بہتر ہے کہ یہ بلوچوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ ساؤتھ افریقی سے نمٹیں۔ وہ واپس پہاڑوں میں چلا گیا۔ اس طرح سے شہباز نے ان دو خاص لوگوں کو خدا حافظ کہا، جنہیں وہ سب سے زیادہ سراہتا تھا۔

تحریک کے اب ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے۔ بلوچ اب باہر کے لوگوں کو مزید اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کی دلچسپی اب انقلاب میں نہیں رہی تھی۔ وہ علیحدگی پسند بن چکے تھے۔ بالآخر ساؤتھ افریقی لندن واپس چلا گیا۔ پہاڑوں سے نکل کر ہوائی جہاز کے ذریعے شہباز بھی وہیں چلا گیا۔ لندن سے اس نے اپنے والدین سے رابطہ کیا، اور انہیں دوبارہ رضامند کر لیا، جنہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہ بے وفائی کر کے انہیں بھول چکا ہے۔

جنگ کی وجہ سے وہ ایک کان سے بہرہ ہو گیا تھا۔ اس کے تمام دانت گر گئے تھے۔ وہ جگر کی ایک سنگین بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا، اور اب وہ الکوحل نہیں پی سکتا تھا۔ اس پر سال میں کئی مرتبہ ملیریا کا حملہ ہوتا تھا۔

اس نے کہا، 'مجھے ان سب چیزوں پر بالکل افسوس نہیں۔ یہ ہمیشہ میری زندگی کا تخلیقی اور پُرجوش حصہ رہا ہے اور رہے گا۔ جہاں مجھے بے حد ہمت اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ مجھے آخری نتیجے سے مایوسی ضرور ہوئی، لیکن یہ تلخی میرے لیے ناقابل برداشت نہیں ہے'۔

یہ زاویہ توقعات سے بالکل ہٹ کر تھا۔ کیا اُسے ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا – وقت گزر جانے کے بعد، اپنے والدین اور بلوچوں کو ایک طرف چھوڑ کر – کہ اس نے اپنے امتیازی حق کا غلط استعمال کیا ہے اور وہ دانشورانہ طور پر غلط تھا؟

'نہیں۔ جب یہ سب کچھ چل رہا تھا تو میں پختگی کی طرف بڑھتا گیا'۔

یہ سب کچھ؟

'تیسری دنیا کی تمام گوریلا لڑائیاں'۔

اس کا اور اس کی ہم عصر پاکستانی نسل، جو آزادی کے بعد پیدا ہوئی تھی، کا یہ حیرت انگیز نوآبادیاتی خیال تھا کہ تعلیم ایسی چیز نہیں تھی کہ آپ اس سے فیض یاب ہو کر اپنی ضروریات پوری کرتے۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس میں آپ فطری طور پر کسی نقصان کے خوف کے بغیر ایک خاص منزل کی تلاش میں سرگرداں رہتے، اور آخرکار فطری طور پر اس منزل کی راہ تک پہنچ کر آپ خودبخود آسانی سے اس راہ پر چل دیتے۔

اس نے اپنے آپ کو ایک مارکسسٹ کی نظر سے دیکھ کر محسوس کیا کہ وہ ہمیشہ غیر رسمی رہا ہے۔ اس نے کبھی نہیں چاہا کہ اپنے مارکسی kit (نظریہ) کو بلوچوں پر تھوپا جائے۔ وہ سمجھتا تھا کہ قبائلی ثقافت میں بہت سی چیزیں اچھی اور مثبت تھیں اور ان کی حفاظت ضرور کرنی چاہیے تھی، جیسے وہاں کا نظامِ قانون اور چراگاہوں کی مشترکہ ملکیت کا نظام، اب ان کی پوری قبائلی ثقافت ملیامیٹ ہو چکی تھی۔ روایتی قانون نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی؛ عدالتوں میں جانے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا تھا؛ اور اب وہاں کے سب سے بڑے خاندانوں کے درمیان لڑائیوں میں دو سے تین سو خون کے مسئلے چل رہے تھے۔ بلوچستان کے حالات اب 1970 سے بھی بدتر ہو گئے تھے، جس وقت وہ انقلاب کیلئے ریل گاڑی، بس کے ذریعہ اور پیدل چل کر کراچی سے روانہ ہوا تھا۔

یہ تھی وہ داستان جس کو سنانے میں شہباز کو کئی گھنٹے لگے تھے۔ اس طرح بتائی ہوئی داستانوں میں ممکن ہے کچھ چیزیں چھوٹ جاتی ہوں اور سننے میں غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے، ایک یا دو دن بعد اپنے نوٹس پڑھنے پر میں نے محسوس کیا کہ بہت سی چیزیں اب بھی چھوٹ گئی ہیں۔ شہباز نے بلوچستان اور افغانستان میں 10 سال گزارے تھے، لیکن وقت کیسے گزرا تھا اس کے متعلق اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔ پانی کے بارے میں کچھ نہیں تھا، خشکی کے مناظر کی کوئی حقیقی منظرکشی نہیں کی گئی تھی۔ اور قبائلی لوگوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ وہ ہی اصل لوگ تھے جن کے لئے مارکس ازم کو لایا جا رہا تھا؛ وہ ہی لوگ تھے جو تباہی و بربادی کے شکار ہوئے تھے؛ لیکن ان کا کوئی ذکر نہیں تھا، داستان میں ان کی جھلک بھی نہیں تھی۔ صرف بلوچ قبائلی سربراہ اور ساؤتھ افریقی اور مسیحی لڑکے کا ذکر تھا۔

قبائلیوں کے متعلق جو میں نے کہا تھا اس سے شہباز کو بڑی حیرانگی ہوئی تھی۔ اس کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا، وہ اس کی کوئی وضاحت نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ جب بات کرتا تھا تو اس کے خیالات میں قبائلی موجود ہوتے تھے۔ میں اُس کے اندر اُن – قبائلیوں – کو ہمیشہ محسوس کرتا تھا۔ لیکن شاید میری توصیف یکطرفہ رہی ہو گی۔

ختم شد۔

وی ایس نائپال معروف ادیب ہیں جنہیں 2001 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔