کوئی بھی چیز جب حد سے بڑھ جائے تو نشہ بنتی ہے۔ یہی حال طاقت کا بھی ہے۔ یہ انتہائی ضرورت کی چیز ہے لیکن جب یہ حد سے بڑھتی ہے تو پھر اخلاق کی حد بھی پھلانگ جاتی ہے اور انسانیت کی بھی۔ جب انسان نے پسی ہوئی زندگی گزاری ہو، ضرورت کی ہر چیز کے لیے ترسا ہو، حقوق کو سلب ہوتے دیکھا ہو اور پھر اچانک اس کو اختیار مل جائے۔ ایسے میں شاید ہی وہ اخلاق کا دامن تھامے رکھے۔
بالکل یہی حال سٹوڈنٹ کاؤنسلز کا ہے۔ پورے ملک میں استحصال کا دور دورہ ہے۔ جس کی لاٹھی ہے وہی بھینس کا مالک بنا بیٹھا ہے اور پھر جن علاقوں میں بدحالی زیادہ ہے، وہاں کے طلبہ کے رویے اور بھی زیادہ شدت پسندانہ ہیں۔ یہ کاؤنسلز انہیں ایک موقعہ دیتی ہیں کہ وہ اپنی آواز کو قابل سماعت بنا سکیں۔
اب نہ ہمارا تعلیمی نظام ایسا ہے کہ طلبہ کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہو اور نہ سیاسی نظام ایسا ہے کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرتی ہو، تو پھر قصور وار کون ہوا؟
کیا طلبہ کے ان متشدد رویوں میں ریاستی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ڈھونڈنا چاہیے یا دشمن ممالک کی سازشوں کو قصوروار ٹھہرانا چاہیے؟
جن کے باپ دادا علاقے کے کاؤنسلرز، نمبردار، زمیندار، ایس ایچ او وغیرہ سے روز ذلیل ہوتے ہوں، انہیں کاؤنسلز غصہ نکالنے کا ایک موقعہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ ناانصافیاں جو انہیں وراثت میں ملتی ہیں، یہ لوگ اس کی تقسیم میں لگ جاتے ہیں۔ پھر جب یہ غم و غصے سے بھرے لوگ سرفروشی کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں تو غدار بھی کہلاتے ہیں۔ یہ ستم بالائے ستم نہیں تو اور کیا ہے؟
ہاں، یہ کاؤنسلز فساد ہیں، کیونکہ یہ طلبہ کے درمیان فاصلے بڑھاتی ہیں۔ انہیں حب الوطنی کے بجائے علاقوں سے محبت کا درس دیتی ہیں۔ طلبہ متحد ہونے کے بجائے تفریق کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ کاؤنسلز ریاست کی ناکامی کا مظہر ہیں اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے نہ صرف ریاست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی بلکہ یونینز کا نظام بھی بحال کرنا ہو گا۔
یونیئنز کے ذریعے طلبہ نہ صرف ایک باشعور سیاست کریں گے بلکہ یکجہتی بھی بڑھے گی۔ سندھ کے طالبعلموں کو صرف سندھیوں کی حمایت ہی نہیں بلکہ دیگر طلبہ جن کا تعلق مختلف صوبوں سے ہو گا، درکار ہو گی۔ یہی معاملات پھر پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کشمیر وغیرہ کے طالبعلموں کے ساتھ بھی ہوں گے۔ پھر لسانیت اور ثقافت کی گولیاں کام نہیں کریں گی بلکہ جس میں دم ہو گا وہ چراغ جلے گا۔
اس سارے سلسلے میں مشکلات تو بہرحال ہوں گی۔ جیسے کہ جس جامعہ میں، جس صوبے کے طلبہ زیادہ ہوں گے وہاں وہی کامیاب سیاست کر پائیں گے، جیسے سندھ یونیورسٹی میں سندھ سے باہر کے طلبہ کا جیتنا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہو گا کہ اکثریت نہ رکھنے والے اس ماحول میں مدعوں پر سیاست کر کے اپنی نیٹ ورکنگ سکلز کو نکھار سکیں گے۔
میرا ایک کلاس فیلو جس نے زیبسٹ یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹرز کیا تھا، مجھے بتایا کہ زیبسٹ کی ایک آفیشل سٹوڈنٹ یونین ہے جس کا سالانہ بجٹ بھی مختص ہے۔ لیکن اس سسٹم کے بھی اپنے مسائل ہیں جن پر پھر کبھی بات ہو گی۔
سٹوڈنٹ کاؤنسلز ایک تباہ کن نظام ہے، جسے ختم کر کے طلبہ یونینز کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سندھ اسمبلی کا اقدام قابل تحسین ہے لیکن ایک سوال جو مجھے پریشان کیے ہوئے ہے، آپ بھی سوچیے اور بتائیے کہ یہ تمام یونین اور کاؤنسلز جیسے مسائل غریب جامعات میں ہی کیوں ہیں؟
کیوں لاہور لمس، این سی اے، آئی بی اے کراچی، انڈس ویلی وغیرہ کے طلبہ نہیں لڑتے؟ کیا یہاں بھی طبقاتی کشمکش تو نہیں؟ اس معاملے پر بات پھر کبھی سہی۔۔۔
کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔