ہمارے بچوں کو بچانے والا کوئی نہیں ہے

ہمارے بچوں کو بچانے والا کوئی نہیں ہے
آج دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ لاہور میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو وہ واحد ڈمی ادارہ ہے جو کم از کم یہ بتاتا ہے کہ حکومت بچوں کے لئے کام کرے گی۔ لیکن کب؟ آپ جب بھی چیئرپرسن سے پوچھ لیں تو وہ ایک ہی سانس میں اپنے کام کے ایسے گن گائیں گی کہ آپ کو لگے گا انسانی حقوق کی علمبردار بس یہی ہیں۔ لیکن، جیسے ہی کیمرہ دور جائے گا پھر وہی تلخی اور اقتدار کا بھوت سوار۔

تین، تین ترجمان ان کی کارکردگی کو چمکانے میں ہمہ تن مصروف بھی نظر آتے ہیں۔ اس لولے لنگڑے ادارے کے ریسکیو آپریشن میں نے خود کور کیے ہیں۔ بچوں کو گھسیٹ کر پکڑنے کے اگلے روز ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور جو بچے بیورو میں ہیں، وہ کس حالت میں ہیں۔ اس کا اندازہ تو آپ خود ہی لگا لیں۔ کیونکہ، ہمیں کیمرہ اندر لے کر جانے کی اجازت  نہیں ہے۔ ہم ان بچوں سے صرف تب ہی بات کر سکتے ہیں جب ان کو کسی ایونٹ پر روبوٹ بنا کر لایا جاتا ہے اور ہم پر دو ترجمان دائیں اور بائیں شانو پر بیٹھے فرشتوں کی طرح مانیٹرنگ پر لگا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ، ہم کوئی ایسا سوال نہ کریں کہ بچے معصومیت میں سچ بول جائیں۔

خیر، میرا غصہ بلاوجہ نہیں ہے بلکہ آج کی فضول حرکت پر لاوا پھٹ پڑا ہے۔ عالمی دن کی مناسبت سے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں ایک محفل رکھی گئی ہے جس میں اداکار احسن خان کو مہمان خصوصی بلایا گیا ہے جبکہ گلوکار علی ظفر گانا گا کر بچوں کو محفوظ ہونے کا یقین بھی دلائیں گے۔ دس، بارہ تصاویر ہوں گی اور چونکہ چمکتے کالے ستارے آرہے ہیں اس لئے میڈیا کی قطاریں فنکشن شروع ہونے سے پہلے ہی لگ جائیں گی اور شہر میں ڈھنڈورا ہوگا کہ بچوں کے محفوظ ہونے کا بھی ایک دن ہے۔ باقی 364 دن انہیں لاوارث چھوڑ دیں۔ پھر چاہے یہ بھیک مانگیں یا کسی بھیڑیے کی ہوس کا شکار ہو جائیں۔

عزت مآب قاری صاحب کو تو اجازت ہے کہ جو چاہیں ان کے ساتھ کریں کیونکہ انہوں نے شرافت کی داڑھی رکھی ہوئی ہے اور وہ معاشرے میں معزز ہیں۔

تب پروٹیکشن بیورو سانحے کے بعد پُرزور لفظی مذمت کر کے بتا دے گا کہ محکمے کا فرض پورا ہوگیا۔ جب سے اس ایونٹ کا معلوم ہوا ہے میں سوچ رہی ہوں کہ احسن خان کو ہی اس تقریب کے لئے کیوں چنا گیا۔ کیا کوئی اور اس تقریب میں نہیں آ سکتا تھا؟ ایک ہی جواب ذہن میں آیا کہ اداکار رمضان ٹرانسمیشن کرتے ہیں، اس لئے شاید ہم سے زیادہ نرم دل ہوں اور ان کے ساتھ تصویر لے کر چند بچوں کو یہ لگے گا کہ انہوں نے ملک کے مایہ ناز شوبز ستارے کے ساتھ تصویر بنائی ہے۔ ارے غصہ نہ کریں علی ظفر گانا بھی گائیں گے اور ہم سب ناچیں گے۔ سوگ کا یہ اچھا طریقہ ہے اور بے حسی کا ماتم بھی ایسے ہی ہونا چاہیے۔ تاکہ پتہ چل سکے کہ ہمارے ضمیر مر چکے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ بچوں کے نام پر ان کو مدعو کیا گیا ہے مگر بچوں کو ہی یہ کہہ کر روکا گیا کہ آپ نے ان کے قریب نہیں آنا کیونکہ یہ سٹار ہیں۔ خاموشی سے بیٹھنا ہے ورنہ میڈم بہت ماریں گی۔ بچے بیچارے سہمے، دور سے ان ستاروں کا پروٹوکول دیکھ کر ہی عش عش کرتے نہ جانے کب تک اپنی محرومیوں پر مسکراتے جائیں گے۔ مگر ان کی یہی ستم ظریفی بیچ کر میڈم نے ان کو یہاں بلایا ہے۔ ورنہ کون آتا ہے ان کے منہ کو۔

آپ دور نہ جائیں، بس ایک سال کا ریکارڈ ہی نکال لیں۔ کتنی معصوم کلیاں مسل دی گئیں؟ کتنے بچے روٹی کا سوال کرتے ہوئے مر گئے؟ مذہبی تعلیمات کے نام پر کتنے پھول درندگی کا نشانہ بنے؟ شاہراؤں اور سنگلز پر کتنے بچے مافیا کے شکنجے میں پھنس کر زندگیاں گروی رکھے ہوئے ہیں؟ ارے بھائی آج کے دن اعلی حکام اور متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کا اجلاس بلاتے، کارکردگی پر سوال ہوتے؟ سیٹوں پر تعینات افسران کی غفلت پر برطرف کر کے حکمت عملی بناتے، نئے ٹارگٹ لیتے۔ بین الاقوامی رپورٹس کا جائزہ لیتے۔ یہ جو کھلے آسمان تلے جانوں کی تذلیل ہو رہی ہے ان سے جا کر ہاتھ ملاتے، حلف اٹھاتے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پروگرامز کا افتتاح کرتے۔

مگر افسوس صد افسوس! یہ دن بھی یونہی منافقت کی بلی چڑھ گیا۔