پاکستان میں ہر چیز سیاست زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ انتظامی امور کے ہر معاملے کو سیاست نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ باقی شعبوں کی طرح زراعت بھی عرصہ دراز سے سیاست کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے مگر یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ ریڑھ کی ہڈی اب کافی کمزور ہو چکی ہے۔ اسی لئے پاکستان کی معیشت بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ پاکستان اس حوالے سے بد نصیب ملک ثابت ہوا ہے کہ اس کے پاس زراعت کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، زرخیز زمین اور دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود پاکستان اپنی خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لئے روس سے گندم منگوا رہا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا، پاکستان کئی عشروں سے آسٹریلیا، یوکرین اور امریکہ سے گندم درآمد کرتا آ رہا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ پاکستان جیسا ترقی پذیر اور پسماندہ ملک اپنی زرعی مصنوعات دوسرے ملکوں کو برآمد کرتا اور زرمبادلہ کماتا۔
پاکستان میں زراعت ریسرچ، ٹیکنالوجی، ادویات اور زرعی آلات کی کمی کی وجہ سے شدید بری حالت کو پہنچ چکی ہے۔ اس وجہ سے سب سے زیادہ متاثر والا طبقہ چھوٹے درجے کا کسان ہے جس کو شدید اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ اب تو نہری پانی کی کمی اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافوں نے کسان کو زراعت سے مایوس کر دیا ہے۔ ابھی موجودہ وقت میں جس معاملے نے کسان کو غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر رکھا ہے اور جس سے پاکستان میں پہلے سے جاری غذائی قلت میں شدت آ سکتی ہے وہ معاملہ گنے کے کرشنگ سیزن میں غیر ضروری التوا کا ہے۔ کیا گنے کے کرشنگ سیزن میں تاخیر میں بھی سیاست اپنا کردار ادا کر رہی ہے؟ آئیں اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پنجاب شوگر فیکٹریز ایکٹ 1951 کے تحت پاکستان میں گنے کا کرشنگ سیزن یکم اکتوبر سے شروع ہو جانا چاہئیے مگر پاکستان میں حسب معمول جو سلوک باقی قوانین کے ساتھ ہوتا ہے وہی اس کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ 2022 کے کرشنگ سیزن کا آغاز بہت پہلے ہو جانا چاہئیے تھا مگر ابھی تک یہ معاملہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔ سندھ حکومت نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ہدایات جاری کی تھیں کہ 20 نومبر تک شوگر ملز اپنی ورکنگ شروع کر دیں اور 29 نومبر تک گنے کی کرشنگ کا آغاز ہو جائے۔ مگر اطلاعات کے مطابق بہت سے شوگر ملز مالکان حکومت کے اس فیصلے کو ماننے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ سندھ شوگر کنٹرول بورڈ نے اپنی 10 نومبر والی میٹنگ میں کرشنگ سیزن کے آغاز کی تاریخ تو دے دی تھی مگر گنے کے ریٹ پہ بورڈ کے اراکین کے مابین اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ دوسری جانب شوگر ملز مالکان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ 2022 کے کرشنگ سیزن کے آغاز سے پہلے شوگر ملز کے پاس تقریباً 1.5 ملین ٹن چینی کا جو سٹاک پڑا ہوا ہے، اسے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ چینی کی درآمد کی اجازت دینے میں حکومت کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اگر شوگر ملز مالکان سٹاک کی گئی چینی ایکسپورٹ کرتے ہیں تو مارکیٹ میں نئی چینی کے آنے تک چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پہلے ہی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ سندھ کے کسان چاہتے ہیں کہ ان کی گنے کی فصل جلد از جلد شوگر ملوں تک پہنچے تا کہ ان کی فصل کا نقصان بھی نہ ہو اور ان کو رقم کی ادائیگی بھی جلدی ہو تا کہ سیلاب میں ان کو پہنچنے والے نقصان کا کچھ ازالہ ہو سکے۔ سندھ کے بہت سارے کسان پہلے ہی اپنی فصل کی کٹائی کا آغاز کر چکے ہیں۔ اگر شوگر ملز نے جلدی کرشنگ شروع نہ کی تو فصل کے سوکھنے کی وجہ سے اس کے وزن میں خاطرخواہ کمی واقع ہو جائے گی جس کی وجہ سے پہلے سے پریشان حال کسانوں کو مزید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ میں واحد مٹیاری شوگر مل ہی ایسی ہے جس نے کرشنگ شروع کی ہے اور وہ کسانوں کو 240 روپے فی من کے حساب سے ادائیگی کر رہی ہے جو کہ اس دفعہ کے ممکنہ ریٹ سے کافی کم ہے مگر اس کے باوجود کسان شوگر مل کو گنا دینے پر مجبور ہیں۔ اطلاعات کے مطابق مٹیاری شوگر ملز کے باہر گنے کی ٹرالیوں کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے اور مل مالکان کا کہنا ہے کہ وہ مل کی کرشنگ کی گنجائش سے زیادہ گنے کی خریداری نہیں کر سکتے۔ اب اگر کسانوں کا گنا مل نے خریدنے سے انکار کر دیا تو گنا سوکھ جائے گا اور کسان کو شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اسی طرح پنجاب میں بھی حکومت گنے کے کرشنگ سیزن کی تاریخ کا اعلان کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہے۔ بالآخر پنجاب حکومت نے جمعہ 18 نومبر کو ایک میٹنگ کے دوران فیصلہ کیا ہے کہ گنے کی کرشنگ 25 نومبر سے شروع ہو جائے گی۔ پنجاب میں بھی سندھ کی طرح شوگر ملز مالکان 25 نومبر کو کرشنگ سیزن شروع کرنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وجہ وہی سندھ والی ہے کہ شوگر ملز مالکان اپنے پاس پہلے سے موجود چینی کے سٹاک کو ایکسپورٹ کرنا چاہ رہے ہیں اور اس کے بعد ہی نئے سال کی کرشنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔
گنے کے کرشنگ سیزن میں تاخیر سے پاکستان پر غذائی قلت کا خطرہ منڈلاتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں زیادہ تر کاشتکار گنے کی فصل کے بعد گندم کاشت کرتے ہیں۔ اگر کرشنگ کا سیزن دیر سے شروع ہوتا ہے تو کسانوں کے پاس گندم کی فصل لگانے کے لئے کم وقت رہ جائے گا اور تاخیری فصل سے گندم کی اوسط میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اسی خدشے کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت گنے کی کرشنگ میں تاخیر کر رہی ہے جس سے ملک میں غزائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے پنجاب حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت دانستہ طور پر کرشنگ سیزن میں تاخیر کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کرشنگ سیزن کو اس لئے التوا میں ڈال رہی ہے تا کہ کسان گندم کی بجائے پھر سے گنا ہی کاشت کریں۔
مریم اورنگزیب کی بات سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی ہو سکتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس عمل سے پاکستان کوغذائی معاملات میں شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں سبق سیکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ خاص طور پر ہمارے سیاست دان اور صاحب اقتدار طبقہ تو اپنے اوپر یہ راستہ بالکل بند کر چکا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پاکستان پہلے ہی روس سے مہنگی گندم درآمد کر رہا ہے تو پھر کیوں گنے کے کرشنگ سیزن اور گندم کی پیداوار کے بارے میں منصوبہ بندی نہیں کی گئی تا کہ اگلے سال گندم کی قلت سے بچا جا سکے؟ ہو سکتا ہے اس لئے کہ سب صاحب اقتدار اس وقت ملک میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں مصروف ہیں؟
پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ حکومت شوگر مل مافیا کے ہاتھوں بے بس اور یرغمال نظر آ رہی ہے۔ اس بے بسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھ اور پنجاب میں شوگر ملز مالکان کا زیادہ تر طبقہ سیاست اور حکومت کا حصہ ہے۔ سندھ کی زیادہ تر شوگر ملز کے مالکان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پنجاب میں شوگر ملز تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں کی ملکیت ہیں۔ آصف علی زرداری کی سندھ میں جبکہ شہباز شریف اور پرویز الہیٰ کی پنجاب میں شوگر ملیں ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ شوگر کرشنگ کے بارے میں فیصلہ لینے والے وہی افراد ہیں جو ملوں کے مالکان بھی ہیں اور صاحب اقتدار بھی۔ پاکستان میں یہ سیاسی اور تجارتی گٹھ جوڑ ہی اس مسئلے کی جڑ ہے کیونکہ اس گٹھ جوڑ میں اپنے ذاتی فائدے کی خاطر سب سیاست دان ہمیشہ ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔