ملکی سیاست نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ ملک میں تاثر جڑ پکڑ چکا تھا کہ نئی قیادت ابھرے گی اور عمران خان حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کارکن مریم نواز اور بلاول بھٹو کی قیادت میں سیاست منظم کرنے کے خواہاں نظر آ رہے تھے۔ مگر دونوں نوجوان کارکنوں کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی مجبوری ہے کہ اپنے بڑوں کی سن کر چلیں۔ بڑوں کی سن کر چلتے چلتے وہ بھی بڑے ہو گئے ہیں اور اب بڑوں کی طرح ہی سوچتے اور سیاست کرتے ہیں۔
کارکنان توقع کر رہے تھے کہ بڑوں کے نونہالوں کی سیاست کا محور نوجوان ہوں گے اور وہ نوجوانوں کی سیاسی طاقت سے سیاسی فیصلے کریں گے۔ جس کے نتائج شاندار نکلیں گے اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نچلی پرتوں سے نوجوان قیادت بھی ابھرے گی۔ جوڑ توڑ اور محلاتی سیاست کی بجائے عوامی مزاحمتی سیاست کا دور شروع ہو گا۔ کارکنان کا یہ خواب بری طرح سے چکنا چور ہوا ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ اے پی سی کی سیاست بھی دھری رہ گئی ہے۔ ہر اے پی سی بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے۔ اے پی سی میں شامل ہونے والے سیلفی سے آگے بڑھنے کو تیار نظر نہیں آتے ہیں۔ بعض کے بارے میں تو یہ بھی گمان ہے کہ بیک ڈور رابطوں میں بھی رہتے ہیں۔ پارلمان کے اجلاس سے غیر حاضری اتحادی سیاست اور جماعتی یکجہتی کا پول کھولنے کے لئے کافی ہے۔ دوسری جانب جوڑ توڑ کے ماہرین چھوٹے میاں اور مفاہمت کی سیاست کے امام بھی پٹ گئے ہیں۔ مولانا فضل رحمٰن بھی شوق پورا کر چکے ہیں۔
اپوزیشن کی ہوا نکل گئی ہے۔ اپوزیشن عرف عام میں اقتدار سے باہر سیاستدان اور جماعتیں ہیں۔ جن کا سارا زور حکومت وقت کو کمزور کرنے اور گرانے کےلئے ہوتا ہے۔ جب کہ مہذب ممالک میں اپوزیشن جماعتیں عوامی مسائل کے حل کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اپوزیشن صرف حکومت گرانے کی بات کرتی ہے اور حکومت کے بنتے ہی گرانے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے بلکہ عوام کے ساتھ دھوکہ، فراڈ اور غداری ہے۔
نام نہاد اپوزیشن نے ہاتھ پاؤں مارے ہیں۔ اے پی سی پر اے پی سی کی ہے مگر حاصل وصول کچھ نہیں ہوا۔ تھک ہار کر اب نواز شریف کو بیچ میں گھسیٹنے کا تجربہ کیا جا رہا ہے جس کے نتائج پہلے سے بھی بدتر نکلیں گے۔ اخبارات کی شہ سرخیاں اور ٹی وی پروگرام سے نیک نامی کا دور گزر گیا ہے۔ اب شوسل میڈیا کا دور ہے۔ بھانڈا اب بیچ چوراہے میں پھوٹتا ہے۔ من پسند کرائے جانے والے ٹی وی پروگراموں کی بھی قلعی کھل چکی ہے۔ نواز شریف پہلے بہت خجل ہو چکا ہے۔ اب پھر خجل ہوگا۔ مشکل سے جان چھڑا کر بھاگا تھا۔ یہی شہباز شریف تھے جنہوں نے بھگایا تھا۔
سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کی اقتدار سے باہر رہتے ہوئے مت ماری گئی ہے یا وہ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ عوام کچھ نہیں سمجھتی ہے۔ بھول چکی ہے۔ عوام کے سامنے سب کچھ آ چکا ہے۔ چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مجھے کیوں نکالا سے لے کر مجھے نکالو تک سب کچھ عوام دیکھتے رہے ہیں۔ کچھ نہیں بھولا ہے۔ سب یاد ہے۔ جی ٹی روڈ مارچ مذاق بن کر رہ گیا تھا۔ گرفتاری پر کتنا احتجاج ہوا تھا، سب جانتے ہیں۔
نواز شریف کا پریشر تب تھا جب عوام ساتھ کھڑے تھے۔ نوازشریف خود جانچ کر چکے ہیں کہ عوام ساتھ ہیں کہ نہیں ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ نواز شریف کو مزید نہ گھسیٹا جائے۔