کرونا سے روز ہزاروں لوگوں کو مرتا دیکھنے والے پاکستانی صحافی کا لندن سے جذباتی خط

کرونا سے روز ہزاروں لوگوں کو مرتا دیکھنے والے پاکستانی صحافی کا لندن سے جذباتی خط
جنوری کے سرد دن تھے، برطانیہ کی سیاست، صحافت اور عام پبلک کی تمام تر توجہ بریگزٹ پر تھی اور مہینے کے اختتام پر ملک کے یورپی یونین سے الگ ہونے سے متعلق گفتگو زوروں پر تھی۔ ایسے میں ہزاروں میل دور ووہان سے آنے والی ان خبروں پر کسی نے خاص توجہ نہیں دی جن میں ایک انجانے وائرس کی بات ہورہی تھی۔اس وقت بعض ممتاز برطانوی  ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے مسئلے کی سنگینی کی جانب اشارا کیا، جس کے بعد برطانیہ کی حکومت کے اعلیٰ عہداروں اور مشیروں پر مشتمل اہم قومی امور پر غور اور فیصلے کرنے والی کوبرا کمیٹی کے اس مسئلے پر اجلاس شروع ہوئے۔ لیکن وزیراعظم بورس جانسن نے اس معاملے کو اتنی اہمیت دی کہ وہ کوبرا کمیٹی کے پانچ اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہوئے۔

مارچ کے وسط تک بظاہر ایسا لگ رہا تھا جیسے کرونا وائرس کو برطانیہ کا ویزا نہیں ملا اس لیے ہم سب اس کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن ایسا ہونا نہیں تھا۔ اچانک ہمارا فالس سینس آف سیکورٹی پاش پاش ہوگیا، اٹلی اور سپین میں سینکڑوں لوگ روزانہ ہلاک ہونے لگے، ہزاروں نئے مریض وائرس سے بیمار ہوکر ہسپتالوں کو بھرنے لگے۔  ہم نے ٹی وی سکرینوں پر دیکھا کہ ان ترقی یافتہ اور بہترین صحت کی سہولیات والے ملکوں میں کورونا کے مریض وارڈوں کے بجائے راہداریوں میں بھی پڑے تھے۔

حالات نے نئی کروٹ لی تھی اور بورس جانسن کو احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے بعض خاص مشیروں کی بات مان کر غلطی کی تھی۔ کورونا وائرس ایسا وائرس نہیں تھا جس کے کو ہلکا لیا جاسکے۔ ہرڈ امیونٹی بھی کسی سٹیج پر شاید بنے لیکن کسی ویکسین کی غیرموجودگی میں یہ بہت بڑا جوا ہوتا اور اس سے لاکھوں لوگ مرسکتے تھے۔

حکومت نے بالآخر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، تعلیمی اداری، ریسٹورنٹ، کلب، پب، دکانیں، شاپنگ مال، سٹیڈیم سب کچھ بند ہوگیا۔ بیشتر لوگ گھروں تا محدود ہوگئے، لیکن ابتدائی دنوں میں جو وائرس پھیل گیا تھا اس سے ہلاکتیں آج بھی جاری ہیں۔ برطانیہ ایک طرح سے حالت جنگ میں ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعیتں سردست حکومت پر تنقید نہیں کر رہیں۔ لیکن بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ جب یہ بحران ختم ہوجائے گا تو یہ مطلبہ ضرور زور پکڑے گا کہ انکوائری کی جائے کہ کیا حکومت نے ابتدا میں سست روی سے کام لیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جان گئی۔

لندن، برطانیہ میں کرونا وائرس کے مریضوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ سینکڑوں مریضوں کی روزانہ کی ہلاکت اور ہزاروں نئے مریضوں کے سامنے آنے سے دل بیٹھا جاتا ہے۔ ماننے کو میں تیار نہیں، لیکن لگتا ہے مجھے ڈپریشن ہوگیا ہے۔ بیشتر دن تو گھر میں دبک کر بیٹھا رہتا ہوں۔ لیکن براڈکاسٹنگ کا شعبہ ہے، لازمی ملازمت ہے، تو ہفتے میں چند دن دفتر جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ ایک مشن سے کم نہیں۔ ہاتھ دھو دھو کر کھال لال ہوگئی ہے، ہر گزتے شخص کو تھپڑ مارنے کو جی کرتا ہے کہ وہ کیوں باہر نکلا ہے۔ لگتا ہے مجھے انفیکٹ کردے گا۔

ہفتے میں ایک دن گروسری کرنی ہوتی ہے۔ جب جانا ہوتا ہے تو دم نکل جاتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ میرے جانے کے بعد بچوں کا کیا ہوگا۔ جیسے سودا سلف لینے نہیں بلکہ جنگ پر جارہا ہوں۔ بیوی آیتیں پڑھ کر پھونکتی رہتی ہیں۔ دو دن میں ایک بار پارک جاگنگ کرنے جاتا ہوں تو اس سے بھی منع کرتی رہتی ہیں۔کل رات ہمارے ایک دوست واجد کنگو کورونا سے متاثر ہوکر فوت ہوگئے۔ بہت پیارے انسان تھے۔ عمر بھی کوئی خاص نہیں تھی لیکن ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ دو ہفتے سے وینٹیلیٹر پر تھے لیکن جانبر نہ ہوسکے۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس دنیا کی بہترین سروس ہے۔ ایک ایک فرد جانشانی سے کام کر رہا ہے، کئی خدمات سرانجام دیتے ہلاک بھی ہوگئے ہیں۔ میں ان کی خدمات کا تہہ دل معترف ہوں، لیکن ان دنوں دل سے یہی آہ نکلتی ہے کہ بس ان کا سامنا نہ ہو، مجھے ابھی شہید نہیں ہونا، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔