ایک ہی دن میں چھ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان یا وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کی کوششیں کس حد تک بارآور ثابت ہو رہی ہیں۔ کچھ خبریں ایسی بھی ہیں جو حکومتی بیانیے کو جلا بخشی ہیں اور اپوزیشن کے لئے باعثِ تشویش کہی جا سکتی ہیں لیکن زیادہ تر خبروں سے نظر یہی آ رہا ہے کہ حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی حالات پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور اگر اس کے ہاتھ جلد کوئی بڑی کامیابی نہ آئی اور اپوزیشن کا دباؤ اسی طرح بڑھتا گیا تو شاید یہ بیانیے کی جنگ میں اتنی پیچھے ہٹ جائے گی کہ حکومت کے سیاسی مینیجرز کے لئے بھی اپنے اراکین تک یہ پیغام پہنچانا مشکل ہو جائے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
شروعات کرتے ہیں حکومت کے لئے ایک باعثِ اطمینان خبر سے۔ بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کی ایک اہم اتحادی ہے۔ اس کا ایک اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے گھر پر منعقد ہوا ہے جس میں یہ بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے کہ کم از کم حکومت کی یہ اتحادی جماعت عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں شامل ہونے کا ارادہ مکمل طور پر ترک کر چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ظاہر ہے کہ یہی ہے کہ یہ خود بلوچستان اور مرکز میں حکومت میں ہے اور حکومت کے جانے کا مطلب اس کی اپنی حکومت کا جانا بھی ہوگا۔ تاہم، اس کے فیصلے کی وجہ محض یہی نہیں۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے کابینہ میں مزید اراکین شامل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی اس اجلاس میں اپنے ان ارکانِ قومی اسمبلی کے بارے میں گفت و شنید کی جن کو یہ وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے میں سنجیدہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس اجلاس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس نے بھی شرکت کی تھی۔ یہی آنے والے چند روز میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اس ملاقات میں یہ اپنی جماعت کی طرف سے تین عدد نام پیش کریں گے جن میں سے کسی ایک کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کا فیصلہ وزیر اعظم ہی کریں گے۔ یہ خبر بھی اہم ہے کہ بزنجو کے علاوہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی بھی آنے والے چند روز میں وزیر اعظم سے ملاقات متوقع ہے۔
اب آتے ہیں حکومت کے لئے دردِ سر بننے والی خبروں کی جانب۔ پہلی خبر دنیا اخبار سے ہے جس کے مطابق شہباز شریف نے ناصرف جہانگیر ترین سے ملاقات کی ہے بلکہ ان کے کہنے پر شہباز شریف نے جہانگیر ترین کے گروپ میں مختلف لوگوں سے علیحدہ علیحدہ بھی بات چیت کی ہے اور اس بات چیت میں یقیناً یہی بات کی گئی ہے کہ کس کس کو مسلم لیگ ن کیا کیا دے سکتی ہے۔ یاد رہے کہ جہانگیر ترین گروپ کی گذشتہ ہفتے لاہور میں دو ملاقاتوں کی اطلاعات ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ترین گروپ کی اکثریت مسلم لیگ ن کے ساتھ جانے کی خواہاں ہے لیکن کچھ ارکان شاید اس حوالے سے اپنی ذاتی حیثیت میں گروپ سے ہٹ کر فیصلہ لیں اور اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھیں۔ ان میں کہا جا رہا ہے کہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے ارکان ہیں۔ تاہم، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ میں آنے والے چند روز میں کچھ مزید افراد بھی حکومتی جماعت سے شامل ہو سکتے ہیں جس کے بعد ان کی تعداد کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔
ایک اور خبر جو حکومتی جماعت کے لئے پریشان کن نتائج کی حامل ہو سکتی ہے وہ شہباز شریف اور مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی میں ایک خفیہ ملاقات ہے جس کے متعلق پہلے کوئی سن گن نہیں تھی۔ تاہم، اب اطلاعات آ رہی ہیں کہ ایک سرِ عام ملاقات کے علاوہ بھی ملاقات ہوئی ہے جس کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں لیکن آنے والے چند روز میں ممکن ہے کہ ق لیگ کے فیصلوں میں اس ملاقات کے اثرات دکھائی دیں۔
چوتھی خبر ہے پنجاب کے اگلے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے۔ اب تک کہا جا رہا تھا کہ پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے آنے اور اس کی کامیابی کی صورت میں چودھری پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ کے ایک مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا لیکن کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ندیم ملک کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ 5 ارکان والی جماعت کو وزارتِ اعلیٰ دیے جانا ناقابلِ تصور ہے۔ ایسی صورت میں حمزہ شہباز کا نام ایک طاقتور امیدوار کے طور پر سامنے آتا ہے لیکن یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اگر اگلا سیٹ اپ چند ہفتوں کا ہی مہمان ہوا تو حمزہ شہباز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے سامنے نہیں لایا جائے گا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ایسی صورت میں صدر ن لیگ شہباز شریف کے ترجمان ملک احمد علی خان کا نام خاصی اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ رانا مشہود بھی ایک امیدوار ہیں جن کا نام پنجاب میں اعلیٰ حلقوں میں لیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا بھی ایک فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس فارورڈ بلاک میں ابتداً پانچ افراد تھے جن کا دعویٰ تھا کہ اس گروپ کی تعداد مزید بڑھے گی لیکن گذشتہ دو سال میں اس کے ارکان کی تعداد بڑھنی تو کیا تھی، الٹا ایک رکن نشاط خان ڈاہا کی وفات کے بعد ان کی سیٹ پر ن لیگی امیدوار کی فتح کے بعد اس کے ارکان کی تعداد صرف 4 رہ گئی ہے۔ تاہم، اب اطلاعات ہیں کہ ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کے بھی دو رکن شامل ہو چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پنجاب اسمبلی میں کل 7 اراکین ہیں۔ اور ان میں سے بھی دو کا فارورڈ بلاک ہے۔ تاہم، یہ خبر اپوزیشن کے لئے اس لئے پریشان کن نہیں کہ اس گروپ کے باوجود اپوزیشن کے پاس کل 166 ارکان ہیں جب کہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے ساتھ حکومت کے 29 مزید ارکان رابطے میں ہیں، جس کا مطلب یہی ہے کہ اس کے پاس مطلوبہ ارکان کی تعداد ہے کیونکہ وزارتِ اعلیٰ کے لئے 186 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ جہانگیر ترین سے صلح کر لیں۔ یہ خبر بھی مختلف ذرائع سے ٹی وی پر سامنے آئی ہے۔ البتہ ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر وسیم اختر پہلے ہی نیا دور پر نادیہ نقی سے بات کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ جلد جہانگیر ترین کی عمران خان سے ملاقات متوقع ہے اور اس خبر کی نفی نیا دور ہی کے پروگرام میں مرتضیٰ سولنگی کر چکے ہیں جن کے مطابق ایسی کوششیں دو مرتبہ ہو بھی چکی ہیں لیکن جہانگیر ترین نے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن اب تک دعویٰ کرتی آئی ہے کہ اس کے ساتھ حکومتی جماعت کے 22 ارکان رابطے میں ہیں لیکن اب شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 24 ہو چکی ہے۔ اے آر وائے کی خبر کے مطابق پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کو مشورہ دیا تھا کہ عمران خان کے دورۂ چین کے دوران عدم اعتماد لے آئی جائے لیکن ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ اب بھی پیپلز پارٹی کا مشورہ ہے کہ دورۂ روس کے درمیان تحریک لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے بھی دیگر دونوں بڑی جماعتوں نے حامی نہیں بھری ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں یہ تحریک سامنے آ بھی جائے، سپیکر نے 3 سے 7 دن میں اجلاس بلانا ہوتا ہے اور وزیر اعظم یقیناً اس عرصے میں اپنا دورہ مختصر کر کے واپس آ سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم تحریک جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتے۔