آئے روز میڈیا پر کسی معروف شخصیت کی مرگ کی خبر تو سننے کو مل جاتی ہے مگر کتنے لوگ مرنے والے کے لیے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کتنے خاموشی کی چادر اوڑھ کر لمبی تان لیتے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
تقریباً چار سال پہلے عبد السّتار ایدھی کا انتقال ہوا تو وطن عزیز میں ہر آنکھ اشکبار دکھائی دی۔ کسی نے رو کر کہا ہمارا سہارا ختم ہو گیا تو کسی نے چھلکتے آنسوؤں کے ساتھ کہا انسانیت کا چراغ گل ہو گیا۔ کسی نے خدا کے حضور گڑگڑا کر اپنی یتیمی کا مداوا کیا تو کسی نے یہاں تک کہا کہ ہمارے منہ سے جیسے کسی نے روٹی کا نوالہ ہی چھین لیا ۔ بات یہ کہ جس جس نے ایدھی کا نام سنا تھا اور انسانیت کا درد رکھتا تھا گویا کہ خود پر سکتے کی سی حالت طاری کروا بیٹھا۔
دوسری طرف ایسے لوگوں کی تعداد بھی موجود تھی جنہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ " ایدھی بے حیائی کو ہوا دے رہا تھا " حالانکہ وہ انسانیت کو گھٹن زدہ معاشرے میں سانس لینا سکھا رہے تھے ۔ اس کے پیچھے وہ یہ لاجک استعمال کرتے ہیں کہ جو لوگ اپنی " ناجائز" اولاد کو کہیں کچرے کے ڈھیر ، سنسان اور ویران جگہوں پر پھینک کر چلے جاتے تھے ، ایدھی ایسے بچوں کی مامتا بنا ہوا ہے ۔
عاصمہ جہانگیر 11فروری 2018 کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں تو ہزاروں کی تعداد میں مرد و زن اس کی تدفین و سوگ میں شامل ہوئے ۔ یہ پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی علمبردار اور سماجی کارکن کے حوالے سے بھی جانی جاتی تھیں ۔ شاید انہیں بھی انسانیت کی آواز بننے پر عوامی مقبولیت کا اعزاز حاصل تھا ۔ عاصمہ جہانگیر پاکستانی اداروں پر تنقید کے حوالے سے تو مقبول تھیں لیکن کچھ لوگوں کی طرف سے خود بھی نفرت کا نشانہ رہیں۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد تو کچھ محبان وطن کی طرف سے غدّاری کا سرٹیفیکیٹ بھی اپنے نام کروا بیٹھیں ۔ یعنی یہاں ہم سب کی جیب میں نفرت کی اِنچی ٹیپ موجود ہے جس سے دوسروں کے قد اور معیارات ماپنے کا کام تسلّی بخش کرتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہم اسی ٹیپ سے سبھی کی پیمائش کرتے ہیں اور نہیں کرتے تو اپنی زبان کی ۔
پاکستان میں بہت سے ایسے لوگ آئے دن یہ کہہ کر مار دئیے جاتے ہیں یا ظلم و جبر اور نفرت کی بھٹی میں جھونک دیے جاتے ہیں کیونکہ ان کا نظریہ یا مذہبی عقیدہ ہماری ٹیپ کے معیار پر پورا نہیں اترتا ۔ آپ کسی ہندو ، مسیح یا کسی اقلیت کے مرنے پر " ریسٹ ان پیس " ( مرنے کے بعد سکون میسر ہو ) نہیں لکھ سکتے ۔ کیونکہ یہ دعائیہ کلمات سب کے لئے نہیں ۔
پچھلے دنوں سنتھیا ڈان رچی نامی خاتون نے بے نظیر بھٹو شہید پر الزامات لگائے اور کہا کہ "جب ان کے شوہر ان سے بیوفائی کرتے تھے تو بینظیر بھٹو اپنے محافظوں سے ایسی خواتین کا ریپ کرواتی تھیں " ۔ بے نظیر بھٹو بھی اوّل الذکر کی طرح عوام کے دلوں پر راج کرنے والی کسی دیوی سے کم حیثیت کی خاتون نہیں تھیں ۔ انہوں نے بھی غریبوں ، لا چاروں اور بے سہاروں کو آمریت کے ظلم ، انسان کش گرداب اور بھنور سے جمہوری طریقوں سے نکالنے کی کوششیں کیں مگر 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر خود کو امر کر گئیں ۔ اب خدا جانتا ہے کہ سنتھیا کی جیب میں یہ انچی ٹیپ کہاں سے آ گئی ۔
اسی طرح علماء و مفکرین کو بھی " ملائیت کی نفرت زدہ انچی ٹیپ " سے پیمائش دی جاتی ہے ۔
ڈاکٹر عبدالسلام نامی طبیعیات دان سر زمینِ پاکستان میں جانے کیوں پیدا ہوئے ۔ عالمی دنیا میں پاکستان کو خوبصورت بنا کر پیش کیا ۔ دنیا جانتی ہے ( ہم نہیں) کہ سائنس آج کیا سے کیا کر رہی ۔جنہیں نوبل انعام تو 1979 میں دیا گیا مگر ان کے مذہبی دائرہ کار کی پیمائش پہلے ہی ہو چکی تھی جس کی بنیاد پر انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا۔
القصّۂِ مختصر اس نفرت کی انچی ٹیپ کی لمبائی تو میں نہیں بتا سکتا مگر جس کے پاس ہوتی ہے اس (انچی ٹیپ ) کی کرامت کے سبب وہ آپ کو ایسے ڈھونڈ نکالتا ہے جیسے کھوجی چوروں کو