جمہوریت میں منتخب آمریت کا شکار ممالک

جمہوریت میں منتخب آمریت کا شکار ممالک
ہم جمہوریت کا راگ تو الاپتے ہیں مگر اس آمریت کا کیا کریں جو ہم خود اپنے سر پر مسلط کرتے ہیں چاہے وہ فوجی آمریت کی شکل میں ہو یا نکمے جمہوری لیڈروں کے سر پر مسلسل مسلط رہنے کی شکل میں۔

اگر ہم پاکستان کے ہمسایہ ممالک کا جائزہ لیں تو اب سے کوئی آٹھ دس برس پہلے تک آمرانہ نظام کے تسلط کے زیر اثر ممالک میں ایران،شمالی کوریا،سعودی عرب،چین اور روس وغیرہ کو شمار کیا جاتا تھا جہاں ان کے شہریوں کو اظہار راۓکی آزادی بھی میسر نہیں۔

مگر اب ہم باری باری چند ان ممالک کا جائزہ بھی لیتے ہیں جن میں جمہوریت اپنے تسلسل کے ساتھ یا گاہے بگاہے موجود رہی مگر پھر بھی عوام نے اپنے ساتھ کیا کیا یا پھر ان کے ووٹ کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا گیا؟

اگر پاکستان کا جائزہ لیں تو اپوزیشن جماعتیں آج اسی بات کو بنیاد بنا کر عوام سے مخاطب ہیں۔جبکہ یہی جماعتیں جب اقتدار میں تھیں تو اقتدار کے نشے میں مست ہو کر ان کو جمہوریت کی مضبوطی کا کوئی خیال نہیں تھا۔اس وقت یہی جماعتیں اس بات پر متفق تھیں کہ ایسی اعلی جمہوری اقدار کا کسی اور معاشرہ میں پایا جانا بہت مشکل ہے۔ان میں سے بھی اکثریت کی خواہش تھی کہ اقتدار ہمیشہ کے لیۓ ان کے پاس رہے اور وہ کرسی سے چمٹ کر سیاسی آمریت کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت کا راگ الاپتے رہیں۔

ہم اگر برما پر ایک نظر ڈالیں تو فوج کی مرضی سے بنائے گئے آئین کے تحت اور فوج کی مرضی سے منتخب ہونے والی حکومت کے باوجود فوج نے نومبر میں آنک سانگ سوچی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور سڑکوں پر نکلے ہوئے ہزاروں،لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے احتجاج نے بھی ان کی آمرانہ طاقت پر کوئ اثر نہیں ڈالا۔

اب ایک نظر خود سےبچھڑنے والے مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش پر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی عوام نے اپنی خوشی اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے لئے جمہوریت کے لبادے میں آمریت کا انتخاب کیا ہے۔جہاں اپوزیشن کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب اپنے روایتی حریف اور ہمسایہ ملک بھارت کا جائزہ لیں جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر چند برس قبل اسی جمہوریت نے ایک غیر جمہوری اور متعصب سوچ کے حامل شخص کو خود پر مسلط کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار لی۔اب جو شخص ملک کو چلا رہا ہے وہ اگرچہ ظاہری طور پر تو آمر نہیں ہے مگر اس کی سوچ جنونی اور غیر جمہوری ضرور ہے۔

چند ہفتے قبل امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس کی آزاد جمہوری ممالک کی انڈیکس میں شہری اور انسانی آزادی کی تنزلی کے اعتبار سے بھارت کا درجہ اکہتر سے کم ہو کر سڑسٹھ تک پہنچ گیا ہے اور پہلی دفعہ اسے آزاد جمہوری ممالک کی فہرست سے نکال کر نیم جمہوری ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مودی سرکار نے اس رپورٹ کو ماننے سے انکار کرتے ہوۓ اسے سامراجی پراپیگنڈا قرار دیا ہے۔

اسی طرح سویڈن کے ورائٹی آف ڈیموکریسی نامی ادارے نے بھی چند ہفتے قبل اپنی رپورٹ میں میڈیا پر پابندیوں اور غداری کے قوانین کے بے جا استعمال پر بھارت کو منتخب آمریت والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق بھارت اس معاملے میں پاکستان کے برابر ہے۔

جیسے پاکستان میں پچھلے کچھ برسوں سے بالخصوص غداری قوانین،میڈیا سنسرشپ اور کچھ حد تک توہین رسالت کے قوانین کا بے جا اور جھوٹا استعمال بڑھا ہے، ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ مودی حکومت میں میڈیا سنسرشپ،دہشت گردی اور غداری کے مقدمات میں اضافہ ہوا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت سات ہزار افراد پر غداری کے مقدمات کا اندراج ہو چکا ہے۔شہریت کے نئے قوانین پر احتجاج کرنے والے اور مودی حکومت سے ٹکرانے والے اس کا خاص نشانہ ہیں۔اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیموں کو کھلی چھٹی ہے اور وہ ایسے مقدمات سے مبرا ہیں۔

گویا اس وقت دنیا کے کئی ممالک خودساختہ اور منتخب آمریت کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے ستاسی ممالک میں قائم دنیا کی اڑسٹھ فی صد کے قریب آبادی خود سے منتخب کی گئی جمہوری آمریت کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہی ہے۔یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آمریت چاہے فوجی شکل میں ہو یا جمہوری لبادے میں ہو،دونوں صورتوں میں ہی عوامی راۓ کے بغیر ہوتی ہے۔

اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ جان بوجھ کر اپنے ووٹوں سے خود پر آمریت کے ذہن رکھنے والے حکمران چنتے ہیں یا پھر عوامی راۓ کو مقدم رکھنے والے غیر متعصب جمہوری حکمران چنتے ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔