یوں تو لاہور کے جلسے میں جوش و خروش بھی تھا اور ہوش بھی، تدبر بھی تھا اور ضبط میں گم صبر بھی۔ اس کے ساتھ ہی معرفت میں لپٹا خاص لوگوں کے لئے ایک خاموش پیغام بھی تھا مگر جو دیدنی تھا وہ پاکستان کی موجودہ سیاسی ثقافت کی انتشاری لب و لہجے کی عادی تشنگی تھی جو اپنی غذا پانے سے قاصر رہی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت اپنے اس جلسے سے جو پاور شو اور باہمی اختلافات کی افواہوں کا خاتمہ دکھانا چاہ رہی تھی وہ اس میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس وقت قومی یا عالمی سطح پر کوئی بھی کسی بھی سیاسی جماعت کا قائد یا تجزیہ کار ایسا نہیں جو اس جلسے میں لوگوں کی مثالی شرکت سے انکاری ہو اور عوام کی شرکت نے نواز شریف پر اعتماد کر کے ان سے وابستہ قومی اور عالمی سطح پر امیدوں کی توثیق اور تصدیق کر دی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے نواز شریف کو خصوصی پروٹوکول پر تحفظات کا بھی اظہار کیا گیا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک مثبت تنقید کی طرف اشارہ ہے اور سیاسی جماعتوں کا یہ حق بھی بنتا ہے۔ خاص طور پر پیپلز پارٹی نے جو مسلم لیگ ن کی پرانی حریف جماعت بھی ہے اور پچھلی دو دہائیوں میں انہوں نے کڑے وقت میں ایک جمہوری حلیف کا کردار بھی ادا کیا ہے، اس لئے ان کی تنقید بھی جمہوریت کی مضبوطی اور اصولی سیاست کے لئے اہمیت سے خالی نہیں۔
چونکہ اب انتخابات کی آمد آمد ہے اس لئے اس جلسے کے بعد سیاسی جماعتوں پر عوامی رجحان واضح ہو گیا ہے اور اب ہر سیاسی جماعت ضرور چاہے گی کہ وہ بھی اپنی عوامی پذیرائی دکھانے کے لئے کوئی اس کے مقابلے کا جلسہ کر کے دکھائے کیونکہ پاکستان کی سیاسی ثقافت میں ایسے جلسوں سے سیاسی ہوا کے رخ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جو عوامی رائے کو ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے انتخابات پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس جلسے سے ایک طرح سے اگلے انتخابات کی کمپین کا آغاز ہو گیا ہے۔
نواز شریف نے اپنے بیانیے کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کا بیانیہ ان کی کارکردگی ہے۔ ان کے دور میں روٹی، پٹرول، ڈالر اور بجلی کی قیمت ہی ان کا بیانیہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کارکردگی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شہباز شریف کی کوئی صفائی پیش نہیں کر رہے مگر مہنگائی کا آغاز ان کو ہٹانے سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن عوام کو قائل کرنے کے لئے ان کو سخت محنت درکار ہو گی کیونکہ پی ڈی ایم کی سربراہی میں بھی مہنگائی کا سلسلہ جاری رہا اور چونکہ وزارت عظمیٰ اور اہم وزارتیں ان کے پاس تھیں اس لئے ان کو اس کی قیمت بہرحال چکانی پڑے گی جس کا ان کو بھی اندازہ ہے۔
انہوں نے اپنی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابی مہم چلانے کی روایت کا آغاز کیا ہے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اب مستقبل کے وعدوں اور پلان کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی کے بھی حوالے دینے ہوں گے اور عوام کو بھی اپنے مستقبل کے فیصلوں کا اختیار دینے سے پہلے سیاسی جماعتوں اور ان کے امیدواروں کو اسی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھ کر اپنے اختیار یعنی ووٹ کا استعمال کرنا ہو گا۔
انہوں نے اپنے ہٹائے جانے کا سبب بننے والے فیصلے کا بھی اظہار بڑے ہی پرتپاک اور جارحانہ انداز میں کیا اور اس کے پس پردہ کرداروں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے قوم کی اس پر تصدیق کی گواہی بھی حاصل کی اور ان کا ایک جملہ پوری تقریر میں بھاری بھی تھا اور ہمارے مسائل کا حل بھی جو انہوں نے آئین کی حکمرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو پہلے ایٹمی طاقت بنایا تھا اب آئینی طاقت بنانا ہو گا۔ اسی میں ان کا سول بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب پوشیدہ تھا جس کو یقیناً سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس پر عملی طور پر ایک ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ تب ہی جمہوریت اور اصولی سیاست کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
ان کی تقریر کے لب لباب کو لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے انتقام کو چھوڑ کر خوشحالی کے انتظام کی بات کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اب ترقی و خوشحالی کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور عوام اور اداروں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے حقیقت پسندانہ تقریر کی ہے کہ اگر تو ترقی کرنی ہے تو پھر قوم اور اداروں کو ساتھ دینا ہو گا اور اس کے لیے وہ کوشش کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے اس حصے میں اپنی قوم اور ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی آخری خواہش ہے مگر اس کا احساس قوم اور اداروں کو بھی کرنا ہو گا۔ وہ پرامید بھی ہیں مگر اس کو یقینی عوام اور اداروں کو بنانا ہو گا۔
مبینہ طور پر عمران خان کا تقریر کو سننے اور اس پر ان کے تاثرات کی بھی خبریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جو نا صرف ان کو بلکہ ان کے فالوورز کو بھی اپنی رائے کو بدلنے میں مدد دیں گے کہ کس طرح سے ان کے جارحانہ اور انتقامی سوچ کے اندازوں کے دھیمے انداز میں جوابات دیے گئے ہیں اور آگے بڑھنے کے لئے انتقامی اور انتشاری سیاست کا خاتمہ کر کے مفاہمی سیاست کا پیغام دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ ملکی سیاست کے اس موڑ پر کوئی بھی سیاسی جماعت ان کے اپنے ہی کارناموں کے سبب اپنے لئے پیدا کردہ آئینی و قانونی جواب دہیوں سے ان کو سرخرو کروانے میں مدد گار تو نہیں ثابت ہو سکتی اور نا ہی کسی طرف سے اس وقت مفاہمت سے اپنا سیاسی نقصان کرنے کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں مگر اس کے لئے کوئی سیاسی فارمولا انتخابات کے بعد طے ہو سکتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اس کے مینڈیٹ کے مطابق عوامی خدمت کا موقع فراہم کیا جا سکے۔
نواز شریف ایک ایسے سیاست دان ہیں جن کے دل کی بات ہمیشہ ایک راز ہی رہتی ہے اور ایسا ہی اس دفعہ بھی ہوا اور ان کی تقریر کے دوران چہرے کے تاثرات حیرانگی اور تجسس کے ایک حیسن امتزاج میں ڈوبے رہے اور ان کی تقریر سے ہر کوئی جو توقعات لگا کر بیٹھا ہوا تھا وہ ان سارے موضوعات کو چھو کر واپس آتے رہے۔ غالب کی زبان میں سب کچھ کہہ بھی گئے اور تجسس کو بھی قائم رکھا۔
؎ غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
ان کی تقریر میں امن کا جو قدرتی منظر نامہ تھا وہ 'امن کی علامت' کبوتروں کا نوازشریف کے اردگرد جھرمٹ اور ان کے لہراتے دائیں ہاتھ پر ٹھہراؤ ملک میں امن اور ایک نئے ترقی کے سفر کی نوید ہے جس میں 'امید سے یقین تک' کے سفر کا قدرت کی طرف سے مثبت اشارہ تھا جس میں چھپے راز آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اگر ان کو حکومت ملتی ہے جس کے اثرات نظر بھی آ رہے ہیں تو ان کی تقریر سے جو خواہشیں مجھے انگڑائیاں لیتی ہوئی نظر آئیں وہ یہ ہیں کہ وہ دنیا میں اور خاص کر ایشیا میں امن چاہتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ نرم ویزا پالیسی اور تجارت کی بحالی چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے لے کر ایران اور سنٹرل ایشیا تک تجارت کے قافلے چلیں اور اسی طرح چین، یورپ اور ایشیائی ممالک بھی پاکستان کے اکنامک کوریڈور سے ہوتے ہوئے آپس میں تجارتی تعلقات کو بحال کریں اور ترقی کا واحد یہی وہ راز ہے جس سے پاکستان اب ترقی کی منزلوں کو طے سکتا ہے۔ ساؤتھ ایشیا کے ممالک اور خاص کر چائنہ، روس اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے ممالک پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان کو پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن چاہئیے جس کی امیدیں اب نواز شریف سے وابستہ ہیں اور نواز شریف کی امیدیں اپنے عوام اور اپنے اداروں سے وابستہ ہیں۔
اسی لئے انہوں نے اپنی تقریر کو ایک سوالیہ نشان کے طور پر چھوڑا ہے اور اب قوم اور اداروں کو بھی چاہئیے کہ وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھیں اور نواز شریف کا ساتھ دیں تا کہ اس ملک کو ترقی یافتہ دنیا کی قطار میں کھڑا کیا جا سکے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور اداروں کا ان کے ساتھ رویے کا اندازہ اور اس سے مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرنا چاہتے ہوں اور اس کا کسی حد تک آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اے این پی اور بی اے پی کے قائدین کی ان سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ ان کے ساتھ مل کر اس ترقی کے سفر کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کی اس تقریر نے ان کو لیڈنگ پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے اور اس وقت اداروں کے اندر سے بھی خود احتسابی کی جو آواز بلند ہو رہی ہے وہ خوش آئند ہے۔