معاشرہ تو ہم خود ہیں

معاشرہ تو ہم خود ہیں
ابتدائیہ ذرا کڑوا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی موجودہ کیفیت اور بدحالی میں جہاں حکمرانوں نے اس کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں اس ملک میں بسنے والے لوگوں نے بھی اس کی بربادی میں اپنا پورا حصہ ڈالا۔ معاشرے کی ہر اکائی اور ہر شعبہ پاکستان کی موجودہ صورت گری میں برابر کا قصور وار ہے۔ ہم ایک ایسے عجیب و غریب معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہر شخص ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ انفرادی طور پر ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہو لیکن ہمارا عملی کردار اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اس ملک میں قانون کی حاکمیت اور حکمرانی چاہتا ہے لیکن عملی طور پر یہ خواہش رکھتا ہے کہ قانون کے ضابطے اس کی ذات پر لاگو نہ ہوں۔

آج ہمارا معاشرہ جس کسمپرسی کا شکار ہے اس میں ہم سب کا انفرادی اور سماجی کردار برابر کا ذمہ دار ہے۔ راقم کو ایک دوست نے ایک کلپ واٹس ایپ کیا جو ہمارے قومی اور معاشرتی کردار کی بالکل درست عکاسی کر رہا ہے۔ کلپ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں اصل گڑ بڑ ہے کہاں؟ دودھ میں پانی، شہد میں شیرا، گھی میں کیمیکل، ہلدی میں مصنوعی رنگ، مرچوں میں لکڑی کا برادہ، کالی مرچ میں گھوڑے کا دانہ، بچوں کی گولیوں ٹافیوں میں جعلی رنگ، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے، پھلوں میی سکرین کے ٹیکے، گوشت میں پانی کی آمیزش، مرغیوں اور حرام جانوروں کے گوشت کی سرعام فروخت، بھینس کا دودھ بڑھانے کے لئے زہریلے ٹیکے، منرل واٹر کے نام پر سرکاری نلکوں کا پانی، جعلی دودھ، جعلی خوراک، جعلی موبائل، جعلی دوائیں، غرض یہ کہ ہر چیز میں دو نمبری ہر چیز میں ملاوٹ۔ ہمارے ملک کی تھوک مارکیٹوں میں 2 نمبر اشیا کی سرعام فروخت۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک کا ہر شہری ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور دھوکہ دینے میں مصروف ہے۔

زندگی کا کوئی شعبہ اٹھا لیں ڈاکٹر ہو یا انجینئر  وکیل ہو یا منصف عالم ہو یا استاد ہر شخص لوٹ مار، دو نمبری میں مصروف ہے اور بالکل شرمندہ بھی نہیں ہے نادم بھی نہیں ہے۔ پاکستان  ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں جمہوریت کے نام پر فراڈ ہوا۔ جمہور کے لئے قائم ہونے والے اس ملک میں جمہوریت کا جو حشر کیا گیا سب جانتے ہیں صرف چند خاندانوں کے لیے جمہوریت کے ثمرات باقی سب جمہوریت کی بنیادی سہولتوں سے بھی نا واقف، ناآشنا۔

آج ملک میں عمران خان کی حکومت ہے۔ ایک ایسی حکومت جو معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ دہائیوں کا بگڑا ہوا معاشرہ اور جمہوری نظام اس تبدیلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر رہا۔ عمران خان کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن برائیوں اور بے ایمانیوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے اس معاشرے کا قبلہ درست کرنے میں کچھ وقت تو ضرور لگے گا۔ عمران خان بلاشبہ ایک نڈر اور بے باک لیڈر ہے جو حقیقی معنوں میں قوم کے مسیحا کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا مشن بھی بہت واضح ہے۔

آج صورتحال حال یہ ہے کہ معاشرے کا ہر ذی شعور اور اس ملک کی تقدیر کو سنوارنے کی خواہش رکھنے والا ہر پاکستانی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ عمران خان اس ملک کی عوام کو ایک خوشحال پاکستان دے سکتا  ہے۔ عمران خان کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں اسے کھل کر کام کرنے نہیں دیا جارہا۔ روز اول سے ہی اس کا راستہ روکا جا رہا ہے، مسائل کا انبار کھڑا کر کے مصنوعی بحران پیدا کیا جا رہا ہے عجیب افراتفری کا عالم  ہے۔ مقصد اور ٹارگٹ صرف عمران خان کا راستہ روکنا ہے۔ سابقہ حکومتوں کی شرمناک کارکردگی سب کے سامنے ہے، پچھلے ادوار میں قومی وسائل کو جس بے دردی  اور بے رحمی سے لوٹا گیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پاکستان کو اس حد تک پہنچا دیا گیا کہ ملک میں پیدا ہونے والا ہر نومولود تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ گزشتہ ادوار میں ملکی معیشت کو بیرونی قرضوں میں جکڑ کر ترقی اور خوشحالی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور حد تو یہ ہے کہ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کر کے اپنی جائیدادیں بنائی گئی۔ لوٹ مار اور کرپشن  کی اس گنگا میں جس کا جتنا داؤ لگا اس نے اشنان کیا۔ ملکی قرضوں کو چھ ہزار ارب سے تیس ہزار ارب تک پہنچایا گیا لیکن ان سے سکولوں کی حالت نہیں سدھری ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریض نظر آئے۔ عوام کو صاف پانی ملا نہ عوام کو بنیادی سہولیات، ہاں صرف خود نمائی کی گئی اور بھاری لاگت کے میگا پروجیکٹس کسی منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیے گئے اور بالآخر اس کے نتائج عوام کو بھگتنا پڑے اور پڑ رہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کو مسائل  ورثے میں ملے اور ان مسائل کو ایک سال میں ختم کرنے کی امید لگانے والے ناجانے کون سی خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ معاشی ابتری کی اس سنگین صورتحال میں عمران خان نے جرات مندی کے ساتھ ایسے فیصلے کیے جس نے عوام کو براہ راست متاثر کیا، لیکن عمران خان نے ایڈہاک ازم کے بجائے ادارہ جاتی ریفارمز کے ذریعے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ جس سے امید ہے کہ مستقبل میں پائیدار معاشی ترقی کی وجہ سے سے عام آدمی کی زندگی  میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کوئی سیاسی لیڈر کوئی سیاسی رہنما ہمیں راستہ تو بتا سکتا ہے، منزل کی نشاندہی تو کر سکتا ہے، لیکن اگر ہم معاشرے کی ایک اکائی اور اس ملک کے ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے رویوں کو تبدیل نہیں کریں گے۔ اپنی انفرادی زندگیوں کی اصلاح نہیں کریں گے۔ تو خوشحال معاشرہ اور خوشحال پاکستان کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے  اپنی اصلاح کرنی پڑے گی اپنی سوچ اور سمت کو درست زاویہ پر رکھنا ہوگا۔ ہمیں انفرادی نہیں بلکہ قوم بن کر سوچنا ہوگا۔ ایک خوبصورت باعزت اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل نو کے لیے اپنی ذات کی اصلاح سے شروعات کرنی ہوگی یہ معاشرہ ہماری امنگوں کے مطابق اسی وقت خوبصورت ہوگا جب ہم ایمانداری سے اپنے معاشرتی کردار کا تعین کر لیں گے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا وطن اور ہمارا معاشرہ اسی وقت سدھرے گا جب ہم خود سدھریں گے کیونکہ معاشرہ تو ہم خود ہیں۔

لکھاری ملک عمر فاروق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر برائے سپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز ہیں۔