Get Alerts

نواز شریف کو ہٹا کر خوشحالی کا راستہ روکنے والوں کو سزا ملنی چاہیے

جن لوگوں کا نواز شریف نے نام لیا ہے ان میں سے تقریباً سبھی ریٹائر ہو چکے ہیں اور صرف ایک جج جسٹس اعجاز الحسن ابھی سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج ہیں۔ اگر یہ بات چل پڑی ہے تو پھر ضرور اس کی انکوائری بھی ہونی چاہئیے اور الزامات کو کسی منطقی انجام تک پہنچنا چاہئیے۔

نواز شریف کو ہٹا کر خوشحالی کا راستہ روکنے والوں کو سزا ملنی چاہیے

نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ سے خطاب کے دوران چار ججز اور دو جرنیلوں کا نام لے کر ان کے احتساب کی جو بات کی ہے اس سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل مچ گئی ہے بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی تھرتھراہٹ پیدا ہو گئی ہوگی کیونکہ اس طرح کی بات کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہماری سیاست کی کچھ روایات ہیں جن کے خلاف چلنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا رہا اور اسی طرح کے جرم کی پاداش میں نواز شریف کو تین دفعہ اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے جس کی بنیاد پر 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ وجود میں آیا تھا۔

سچ بات تو یہ ہے کہ اگر ہم 2013 اور 2018 کے پاکستان کے فرق کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اس ملک کے لئے بہت محنت کی ہے اور جس نے محنت کی ہوتی ہے اس کو اپنی محنت کے ضائع ہونے کا افسوس بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں کیا ان کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ 2018 کے پاکستان کو آج کا پاکستان بنانے والوں کے کارناموں کا ذکر ہی کر لیں؟ آج ملک کو اس نہج پر پہنچانے والوں کے نام زبان زد عام ہیں بلکہ بعض نے تو خود اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ عدالت عالیہ اور نیب عدالت کے ججز کی شہادتیں موجود ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔

جس طرح سے نواز شریف کو وزیر اعظم کی کرسی سے ہٹایا گیا، پارٹی کی صدارت سے سبکدوش کر کے بعد میں سیاست سے بھی باہر کرنے کی پوری کوشش کی گئی، مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا، یہ سب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر آج وہ اپنی سیاست کا آغاز اپنے اور اس ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم سے نہیں کریں گے تو پھر کہاں سے شروع کریں؟ عوام آج جس مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی مشکلات سے دوچار ہیں وہ اس صورت حال کے ذمہ داران کو جاننا اور انہیں قصوروار ٹھہراتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اصل ذمہ داران کو بے نقاب نہیں کرتے تو عوامی غضب کا یہ سارا ملبہ ان کی جماعت پر پڑ جائے گا کیونکہ انہوں نے ڈیڑھ سال حکومت کی ہے اور بظاہر ان مہینوں میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے مگر اس کی وجوہات تو پہلے والوں کی نااہلیاں اور پالیسیاں ہیں۔

اگر آج وہ اپنے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے پر خاموش ہو گئے تو دوسری جماعتوں کے شعبدہ باز، بہروپیے باہمی گٹھ جوڑ سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اب اس نعرے کو بھی چرا لیں گے۔ اس بیانیے پر کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف چاہیں بھی تو اس کو نظر اندازنہیں کر سکتے، یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے بلکہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ ویسے بھی اگر اتنے لمبے عرصے تک ریاستی وسائل کے استعمال اور اختیارات کے باوجود اگر نواز شریف کو سیاست کے منظر نامے سے ہٹایا نہیں جا سکا اور آج بھی وہ سیاست کا مرکز ہیں تو پھر ان کو بیانیے سمیت برداشت کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔

اس ملک میں کیا کچھ ہوتا رہا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا، سب کو معلوم ہے۔ کسی کو سزا ہو یا نہ ہو یہ الگ بات ہے لیکن تاریخ کو خاموش تو نہیں کرایا جا سکتا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ابھی اس سطح کا شعور اور اخلاق نہیں رکھتے کہ ہم سچ پر مبنی ساری باتیں کرنے لگ جائیں یا اس کو برداشت کر سکیں اور نا ہی ہماری سوچ و عمل اس کا ساتھ دینے کے قابل ہیں لیکن جرم کو جرم تو کہنا ہی پڑے گا اور اگر جرم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی تو پھر اس کے خاتمے کو بھی ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مستفید ہونے کے خواب دیکھ رہی ہے اور ہم اپنی روایتی انٹیلی جنس سے چھٹکارا نہیں حاصل کر پا رہے اور افواہوں کی سیاست نے ہمیں جکڑا ہوا ہے۔ خود ساختہ سپوکس پرسنز کے بارے میں بھی وضاحت ہونی چاہئیے۔ اگر بیانیے میں کوئی مفاہمتی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ بھی ریاست کے مفاد میں دیکھی جانی چاہئیے کیونکہ ان معاملات میں الجھ کر خوشحالی و ترقی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ نواز شریف ایک ذمہ دار سیاست دان ہیں، وہ سیاست کے داؤ پیچ بھی جانتے ہیں اور خوشحالی و ترقی کے راز بھی۔

ہمیں بحیثیت قوم اگر ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی قومی بے وقوفیوں کو بھی سدھارنے کا کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو نہ دہرانے کی یقین دہانی کا کوئی عملی ثبوت دینا ہو گا تا کہ مستقبل کو ان ناخوش گوار واقعات سے محفوظ بنایا جا سکے۔ نواز شریف کے آخری ادوار میں کوئی بھی انتقامی کارروائیوں والی بات نہیں ملتی اور ویسے بھی عمران خان کے اپنے محسنوں کو بے نقاب کرنے کے بعد بدلہ لینے کی کسی کو کیا ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان کے ہر ادارے بشمول پارلیمان، عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج سب اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے طور پر ان الزامات کی انکوائریز کروا کر معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہونے کا دعویٰ حقیقی ثابت کرنا ہے تو پھر ایسا ماحول تو پیدا کرنا پڑے گا جس میں لوگ ذمہ داران کا احتساب ہوتا ہوا دیکھیں، وگرنہ صرف دعوؤں سے بات تو نہیں بن سکتی۔

اس احتساب کا مقصد کسی سے بدلا نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اس کا مقصد ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنا، ریاست کے وسائل، اختیارات کو محفوظ اور قومی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہونا چاہئیے۔ ادارے ریاست کے دست و بازو ہوتے ہیں لہٰذا ان کی تکریم بھی ضروری ہے اور ان کے اندر تذبذب کو پیدا ہونے اور اعلیٰ افسران کے مورال کے گرنے سے بچانے کا بھی خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اداروں اور ان کے وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والی سوچوں سے بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ریاست اور اداروں کے باہمی ربط کو مضبوط کر کے تمام تر وسائل، اختیارات اور صلاحیتوں کو ریاست کی خوشحالی و ترقی کے لئے استعمال ہونے کے قابل بنایا جا سکے۔

سادہ لفظوں میں اگر ادارے نیوٹرل ہو گئے ہیں اور ایوان عدل میں شفافیت اور غیر جانبداری آ گئی ہے تو پھر ایسی صورت حال میں کوئی بھی قانون سے بالا تر تو نہیں ہو سکتا۔ یہی انصاف کا آسان سا ٹیسٹ ہے۔

جن لوگوں کا نواز شریف نے نام لیا ہے ان میں سے تقریباً سبھی ریٹائر ہو چکے ہیں اور صرف ایک جج جسٹس اعجاز الحسن ابھی سپریم کورٹ کے دوسرے سینیئر ترین جج ہیں۔ اگر نواز شریف ان کا نام لے کر بات کر رہے ہیں تو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ وہ تین دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، وہ بخوبی معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہیں کہ جسٹس اعجاز الا حسن اگلے چیف جسٹس بننے والے ہیں اور اگر وہ ان پر خواہ مخواہ کا الزام لگائیں گے تو پھر ان کی بھی پوچھ پکڑ ہو سکتی ہے۔ تو اس سے لگتا ہے کہ ان کے پاس ضرور کوئی ٹھوس شواہد ہوں گے جن کو وہ وقت آنے پر عوام کے سامنے یا کسی دوسرے فورم پر پیش بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بات چل پڑی ہے تو پھر ضرور اس کی انکوائری بھی ہونی چاہئیے اور الزامات کو کسی منطقی انجام تک پہنچنا چاہئیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن خود بھی نواز شریف کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں یا سپریم کورٹ اس پر نوٹس لے سکتی ہے۔ آخر میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ شوق سے جبر حضوری کے بعد دستوری جبر کا سامنا کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر کسی کو ذمہ داری سے بات کرنی چاہئیے اور الزامات کی سیاست اب ختم ہونی چاہئیے جس کا حل تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے جس جس پر بھی الزام ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اگر الزام غلط ثابت ہوتا ہے تو پھر الزام لگانے والے کو سزا ہونی چاہئیے اور اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو پھر اس پر کارروائی کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔