آخر شادی اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟

آخر شادی اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے؟
گزشتہ رات میرے ایک واٹس ایپ اسٹیٹس پر زہرا کاظمی کا ردعمل آیا ، اسٹیٹس شادی کے حوالے سے تھا اور اس میں لڑکی کے گھر والوں کی ڈیمانڈز درج تھیں کہ شادی کیلئے لڑکی کے گھر والے  لڑکے اور اسکے گھر والوں سے کیا کچھ ڈیمانڈ اور کتنی  قسم کی فرمائشیں کرتے ہیں ۔ اب چونکہ ہم دونوں ہی غیر شادی شدہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو بات ردعمل سے بڑھ کر مکالمے کی جانب چل نکلی

پہلے وہ اسٹیٹس آپ کی نظر کیے دیتا ہوں تاکہ باقی ماندہ بات آپکو سمجھنے میں آسانی ہو۔ لڑکی کے گھر والوں کو لیکر شادی کی ڈیمانڈز کچھ یہ تھیں کہ ( لڑکا ڈاکٹر یا اچھا کاروباری ہو ، گھر ذاتی ہو ، تنخواہ بھی 6 ہندسوں والی ہو، اسکی فیملی چھوٹی ہو، برادری یا کاسٹ ایک جیسی ہو، اسی شہر کا ہو جو لڑکی کا ہے، حق مہر اتنا ہو ، سونا اتنے تولے ہو ، قد اتنا ہو ، رنگ گورا ،لڑکا سمارٹ اور خوبصورت بھی ہو

یہاں تک تو ڈیمانڈز تھی لیکن ساتھ ہی کسی دل جلے لڑکے نے غصہ نکالا ہوا تھا اور جواب بھی تحریر کیا ہوا تھا وہ بھی پڑھ لیں ( کوئی ان سے پوچھے کہ بدلے میں دیں گے کیا ؟ ایک بت نما لڑکی ،جسے نہ کھانا پکانا آتا ہو، نہ گھر کا کام کاج، نہ دینداری ہو نہ نماز روزہ، صرف موبائل چلانا آتا ہے ، اور بے جا شاپنگ کرنا اور فضول پیسے اُڑانا، یہ سب صرف ایک ڈگری کی وجہ سے ، کیا اسکی ڈگری کو ہم نےچولہے پر چڑھانا ہے؟)

سب سے پہلے تو زہرا نے کہا کہ لڑکوں کی فرمائشیں بھی لکھیں تصویر کا دوسرا رُخ بھی عوام کے سامنے رکھیں پھر ان محترمہ نے وہ رُخ خود ہی بیان کیا کہتی ہیں کہ مڈل کلاس کی پڑھی لکھی، قابل اور محنتی لڑکیاں مڈل کلاس لڑکوں سے صرف اس لیے ریجیکٹ ہو جاتی ہیں کہ وہ لڑکے کسی امیر باپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں تاکہ لڑکی  جہیز میں گاڑی ، گھر اور زیور لائے پھر بولی اگر کوئی مڈل کلاس لڑکا سی ایس ایس کر کے حکومت کا نوکر ہو ہی جائے تو اس کو تو جنت کی حور سے نیچے لڑکی پسند ہی نہیں آتی خود چاہے لنگور ہی کیوں نہ ہو۔

شاید یہ تحریر آپکو مزاحیہ لگے لیکن پاکستان میں شادی ایک اچھا خاصا طولانی اور گھمبیر مسئلہ ہے ،یہاں کے نوجوان شادی کیوں کرتے ہیں یا کیوں کرنا چاہتے ہیں ان کے جوابات دیکھیئے۔

غیر شادی شدہ خواتین کی جانب سے زیادہ جواب تھا کہ شادی معاشرتی دباؤ یا پھر معاشرتی حفاظت کیلئے کرنی ہے  یا پھر چند ایک کا کہنا تھا کہ بس شادی کرنی ہے کوئی وجہ نہیں کرنے کی جبکہ شادی شدہ مرد کی خواہش بچے پیدا کرنا تھا تاکہ ان کی آئندہ نسل معاشرہ کا حصہ بن سکے۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ایک دن وہ بیمار ہو گیا اکیلا بیٹھا تھا سوچا زندگی بھی اکیلی ہو گئی ہے ایسے نہیں گزرے گی تو شادی کا فیصلہ کر لیا۔

ایک دور تھا کہ 20 سے 30 سالہ خواتین ہر صورت میں شادی کر لیتی تھیں لیکن اب تو 30 ، 40 اور 50 سال کی خواتین بھی غیر شادہ شدہ پائی جاتی ہیں انکی اپنی وجوہات ہیں، خواتین اب ’کریئر اورئنٹڈ‘ ہو گئی ہیں ۔ جن خواتین پر شادی کا دباؤ خصوصاً گھر والوں کی جانب سے نہیں ہوتا اور کچھ بننا چاہتی ہیں تو وہ شادی کو سائیڈ پر کر کے اپنے کریئر پر توجہ دیتی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی خواتین کی بڑی تعداد پڑھائی اور نوکری اس لیے کر رہی ہے کہ انکو ایک اچھا زندگی کا ساتھی مل جائے۔

سوشل میڈیا ٹرینڈز اور مکالموں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نوجوان لڑکوں کی ایک کثیر تعداد جن کی عمر 18 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے ان کیلئے خواتین کا حصول جنسی ضرورت کیلئے ہوتا ہے وہ پھر گرل فرینڈ ہو یا بیوی لیکن اسی عمر کی خواتین کا اب شادی پر اعتقاد کم جبکہ تعلقات پر انحصار زیادہ ہو گیا ہے انکو معاشرتی محافظت کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے ایک آدھ پارٹنر کی ضرورت رہتی ہے۔

اسی پر سائیکالوجسٹ سدرہ اختر سےرابطہ کیا ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ہر کسی کی اپنی رائے ہے لیکن زیادہ تر لڑکیاں اپنے سوشل اسٹیٹس کو اپ گریڈ کرنے کیلئے شادی کرتی ہیں

زہرا سے مکالمہ چل رہا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل چونکہ بغیر کسی مقصد کے سرگرداں ہے اور تھوڑی سے پڑھائی کے علاوہ کچھ نہیں کرنا ہوتا تو ان کی رغبت جنسی مواد کی جانب ہو جاتی ہے پھر ان کو ایک گرل فرینڈ یا بیوی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی جنسی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔ زہرا سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا آج کل گرل فرینڈ کے مقابلے میں بیوی حاصل کرنا زیادہ مہنگا ہے تو انکا جواب آیا نہیں آج کی گرل فرینڈ بھی گاڑی میں ہی سوار ہو کر آپ کے ساتھ چلنا چاہتی ہے اور گاڑی لینے کیلئے بھی آپ کو محنت کر کے کمائی کرنا ہی پڑے گی لیکن اگر آپ نے ایک دفعہ خرچہ کر کے بیوی حاصل کر لی تو آپ کو ساری زندگی کیلئے جنسی عمل کا لائسنس مل جاتا ہے۔

احادیث میں یہ بات وارد ہوئی ہے کہ اگر تم تنگ دست ہو تو شادی کر لو خدا تمہارے رزق میں اضافہ فرمائے گا، شادی کیلئے زندگی کا ساتھی کیسا ہو اس پر بھی حدیث ہے کہ جب تم اپنی بیٹی کی شادی کرو تو اپنے سے زرا اوپر کے خاندان میں کرو اور جب کسی کی بیٹی لو تو اپنے سے نیچے کے خاندان سے لو ، پھر ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے لیے بیوی نہیں بلکہ اپنے بچوں کیلئے ماں تلاش کرو ۔ اگر ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ لیا جائے تو کافی حد تک مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔

شادیوں کا دیر سے ہونا بہت سے معاشری مسائل پیدا کرتا ہے جس سے زینب اور موٹروے جیسے واقعات سامنے آتے ہیں کیونکہ جنسی ضرورت اگر بروقت اورجائز عمل سے پوری نہ ہوتو یہ انسان جنسی بھیڑیا بننے میں دیر نہیں لگاتا۔

سرگودھا سے تعلق رکھنے والے کولیگ عامر رضا کہتے ہیں کہ جس اسلامی معاشرے کی عوام سے آپ نےشادی کے بارے میں سوال پوچھا ہےاور آپ کو ایک شادی کےسوال کے جواب میں اتنی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ ایک سوال میں ہی اتنا الجھ گئے ہیں وہ آگے کی کیا سوچیں گے  حالانکہ اس معاشرے کے مردوں کو چار شادیوں والی حدیث سب سے زیادہ یاد ہوتی ہے۔

لیکن ہمارے دور کے کنواروں یعنی کہ حقیقتا بیچاروں کا کیا کہنا ہے یہ بھی پڑھ لیجئے؎

نا چاند رہے گا ، نا ستارے رہیں گے

کیا ہم ساری زندگی کنوارے رہیں گے

روز ہوتے ہیں ہزاروں نکاح دنیا میں

کیا ہماری قسمت میں چھوارے رہیں گے