امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلسل عرب دنیا کے ممالک اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوششیں جاری ہے اور متحدہ عرب امارات سمیت بحرین اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم کردار رہا ہے۔ مگر اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اتوار کے روز اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو خفیہ طور پر سعودی عرب گئے جہاں انھوں نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔ اسرائیلی اخبار Haartez نے اپنے خبر میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے دورے سے اسرائیل کے نائب وزیر اعظم ، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کو بھی لاعلم رکھا گیا تھا اوراسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے خفیہ طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں امریکی سیکریٹری سٹیٹ مائیک پومپیو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات طے شدہ تھی ۔
اسرائیلی قومی اخبار نے فضائی سروس کی نگرانی کرنے والے (فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے زیر نگرانی رہنے والے طیارے نے اسرائیلی شہر تل ابیب سے اُڑان بھری اور نیوم گیا جہاں انھوں نے مائیک پومپیو کی موجودگی میں محمد بن سلمان سے ملاقات کی ۔
خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ماضی میں نیتن یاہو کے زیرِ استعمال رہنے والا طیارے جس پر وہ سعودی صدر سے ملاقات کے لئے بھی گئے ہیں نے پانچ گھنٹے قیام کیا۔ اسرائیل کے قومی اخبار کو حکومتی کابینہ کے رکن نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے جبکہ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اس ملاقات کی تردید کی ہے۔
مگر اسرائیل وزیر اعظم کی جانب سے اس مبینہ دورے کے بعد پاکستان میں بھی حکومت کے حامی صحافی اور دانشور اسرائیل سے تعلقات پر نظر ثانی کے لئے رائے عامہ ہموار کررہے ہیں اور اس وقت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کے حوالے سے بحثیں سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ نیا دور میڈیا نے خطے میں سیاسی تبدیلی اور پاکستان اسرائیل تعلقات سمیت اس کے ممکنہ اثرات پر ماہرین سے بات کی ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی میں بین القوامی تعلقات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر نذیر حسین نے خطے میں سیاسی تبدیلیوں اور پاکستان اسرائیل تعلقات پر نیا دور میڈیا کو بتایا کہ میرے خیال میں پہلے تو یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ عمران خان کی حکومت سمیت کوئی بھی سیاسی حکومت اسرائیل سے تعلقات کی طرف نہیں جائے گی کیونکہ پاکستان میں اسرائیل کے خلاف مذہبی نفرت موجود ہے اور اگر کوئی حکومت کوشش کریگی تو میرے خیال میں وہ سیاسی خودکشی ہوگی جو حکومتوں کے لئے شدید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر نذیر حسین نے مزید کہا کہ اسرائیل پاکستان کے لئے نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ اُمت مسلمہ یا اُمہ کا مسئلہ ہے جس کے ساتھ جذباتی وابستگیاں موجود ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کریگا تو وہ اس فیصلے کو او آئی سی کی طرف لیکر جائےگا اور اگر سعودی عرب اس کو تسلیم کریگا تو باقی ممالک بھی تسلیم کرینگے۔
پاکستان میں مذہبی سیاست اور انتہاپسندانہ رجحانات پر نظر رکھنے والے صحافی اور کالم نگار سبوخ سید اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے حکومت مخالف ایک احتجاجی تحریک اُٹھے گی وہ کہتے ہے کہ کشمیر کو ہم اپنا شہ رگ سمجھتے تھے مگر ہندوستان کی جانب سے قبضہ کرنے کے بعد ہمارے ہاں چند مظاہرے ہوئے اور حکومت سمیت شہریوں نے خاموش احتجاج کیا مگر کوئی خاص قسم کا جواب نہیں آیا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کوئی سخت مزاحمت سامنے نہیں آئےگی ۔ سبوخ سید کا ماننا ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع کے اوپر ایران کا ایک خاص اثر رسوخ ہے اور میں سمجھتا ہو کہ ایران لابی کا رد عمل سامنے آئیگا مگر باقی کچھ خاص مزاحمت نہیں اُٹھے گی۔ صحافی سبوخ سید کا ماننا ہے کہ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل معاشی سطح پر ایک طاقتور ریاست ہے اوراسلحہ سمیت ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے جارہا ہے جبکہ دوسری جانب فلسطین کے پاس کچھ بھی نہیں اس لئے اگر خارجہ تعلقات کے جدید خطوط کو دیکھا جائے تو بہت سارے مسلمان ممالک اسرائیل کی جانب قدم بڑھانے کے لئے پرجوش ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کا مسئلہ ہے اور عرب دنیا ہی اس کا فیصلہ کریگی اگر عرب دنیا اس اسرائیل کو تسلیم کریگی تو میرے خیال میں پاکستان کو پھر قربانی کا بکرا نہیں بنانا چاہیے ۔
پروفیسر نذیر حسین کا ماننا ہے کہ پاکستان اگر اسرائیل کو تسلیم کریگا تو نہ تو معاشی سطح پر کوئی فائدہ ہوگا نہ سفارتی سطح پر لیکن یہ ضرور ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مسئلہ کمزور پڑجائیگا اور پاکستان نے کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے جو حق خود ارادیت کا موقف اپنایا ہے وہ مقدمہ کمزور پڑجائیگا کیونکہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کریگا تو ظاہر سی بات ہے کہ کشمیر کے مقدمے پر ان کا گرفت کمزور ہوگا۔
ایک سوال پر کہ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو معاشی یا سفارتی محاذ پر کوئی فائدہ ہوگا ، کے جواب پر پروفیسر نذیر حسین کا ماننا ہے کہ اگر سچ بات کی جائے تو بین الاقوامی محاذ پر ہماری کوئی خاص حیثیت نہیں اور نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کوئی فائدہ ہوگا کیونکہ اسرائیل کے دفاعی معاہدے اور ساتھ ساتھ تمام کاروباری کمپنیاں ہندوستان کے ساتھ ہیں تو اس حوالے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک سوال پر کہ کیا پاکستان پر امریکہ سمیت سعودی عرب کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤآئیگا پر انھوں نے کہا کہ ظاہر سی بات ہے کہ ترکی اور سعودی عرب بھی یہی موقف اپنا رہے ہیں کہ ان پر دباؤ ہے لیکن اگر عرب دنیا اس کو تسلیم کریگی تو پاکستان پھر کیوں قربانی دیں یا خود کو قربانی کا بکرا بنائے پاکستان کے اصل مسئلہ اندرونی دباؤ ہے بیرونی نہیں۔
پاکستان کے نامور صحافی اور کالم نگار آیاز امیر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اسرائیل سے ہمارا کوئی لینا دینا بنتا ہی نہیں کیونکہ یہ عرب ممالک کا مسئلہ ہے اور وہ ہی اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ ہماری کوئی دشمنی نہیں البتہ بہت سارے عرب ممالک کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جس میں سعودی عرب صف اول ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا کر ہم ایران کو مشرق وسطیٰ میں چیلنج کریں اور ان کے خلاف کوئی طاقتور محاذ بن سکے۔ صحافی اور کالم نگار ایاز امیر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اندرونی طور پر ایک دباؤ بڑھے گا مگر میرا نہیں خیال کہ اسرائیل امریکہ یا دیگر عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بنانے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ہم اس فارمولے میں فٹ ہی نہیں ہوتے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو اسرائیل ہم سے بہت دور ہے اس لئے تجارت کا کوئی ربط نہیں اور اگر ہم تجارت کی بات کرتے ہیں تو جو ہمارے قریبی ممالک ہے ان کے ساتھ تجارت میں ہم کونسے اچھے ہیں؟