اے آر وائی نیوز پر ہتک عزت کے مقدمات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ برطانوی عدالتوں میں دائر یہ کیسز ہارنے سے چینل کو اب تک ہزاروں پائونڈز ادا کرنے پڑے ہیں۔
گل بخاری
رواں ماہ ہی مشہور ایکٹوسٹ گل بخاری نے برطانیہ میں اے آر وائی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیتا ہے۔ اس کیس میں یوکے میڈیا ریگولیٹری باڈی آف کام نے فیصلہ دیا کہ اے آر وائی کے یوکے چینل، نیو ویژن ٹیلی ویژن (این وی ٹی وی) نے گل بخاری کے بارے میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے نوٹس کی جھوٹی خبریں چلائی تھیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی شدید ناقد سمجھے جانے والی گل بخاری 2019ء سے لندن میں مقیم ہیں۔ گل بخاری نے فروری 2020 میں اے آر وائی کے ذریعے نشر کئے گئے ہتک اور توہین آمیز ریمارکس کے حوالے سے آف کام پر اپنی ہتک عزت کی شکایت کی تھی۔
زیر بحث نشریات کے دوران، اے آر وائی نے اپنے رپورٹر ذوالقرنین حیدر کی ایک بریکنگ خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ “قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اکسانے کا معاملہ میں ایف آئی اے کو حرکت میں لایا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے گل بخاری کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ اے آر وائی کے رپورٹر نے بتایا تھا کہ گل بخاری کے پاس ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کے لیے 30 دن ہیں۔
رپورٹر نے مزید کہا تھا کہ “خود کو پیش نہ کرنے کی صورت میں گل بخاری کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔ عدالتی حکم کے بعد ایک معاہدے کے تحت محترمہ گل بخاری کو وطن واپس لایا جائے گا، انٹرپول سے رابطہ کیا جائے گا اور ان کی جائیداد بھی ضبط جا سکتی ہے۔
گل بخاری نے اس خبر کی تردید کی تھی کہ انہیں ایف آئی اے نے نوٹس بھیجا تھا اور بیان دیا کہ ان ‘بے بنیاد’ بیانات نے انہیں دہشت گردی اور تشدد میں ملوث ہونے کے طور پر غیر منصفانہ طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے خاندان کو جھوٹی رپورٹ کے بعد دھمکیاں دی گئی تھیں۔
تقریباً دو سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد، آف کام نے معلوم کیا کہ اے آر وائی نے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے مناسب خیال نہیں رکھا کہ حقائق کو اس انداز میں پیش کیا جائے جو محترمہ بخاری کے لئے منصفانہ ہو۔
آف کام نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ اے آر وائی نے مس گل بخاری کے لئے اپنے بارے میں نشر کئے گئے اہم الزامات کا جواب دینے کے لئے انہیں مناسب وقت اور موقع فراہم نہیں کیا۔
اے آر وائی نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ایف آئی اے نے گل بخاری کے خلاف ان کے ذاتی ٹویٹر اکاؤنٹ پر کئے گئے اظہار خیال کے سلسلے میں ایک مقدمہ شروع کیا تھا۔ خاص طور پر، ایک ٹویٹ جو انہوں نے 12 جنوری 2020 کو پوسٹ کی اور وہ وائرل ہو گئی۔
اے آر وائی نے کہا تھا کہ اسے ایف آئی اے کی جانب سے اس سٹوری کا نوٹس موصول ہوا تھا، جسے دیگر میڈیا اداروں کو بھی فراہم کیا گیا تھا۔ تاہم گل بخاری کے وکیل کی مزید پوچھ گچھ پر ایف آئی اے نے کہا کہ وہ نوٹس کے ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے بعد اے آر وائی نے اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ “خبر کی سٹوری براہ راست سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے آئی تھی اور اس لئے اس پر بھروسہ کیا گیا تھا۔”
آف کام نے اے آر وائی کے دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ، “پروگرام میں محترمہ بخاری کے بارے میں کیے گئے تبصرے سنگین نوعیت کے تھے اور، ہماری نظر میں، ایسے اہم الزامات تھے جو محترمہ بخاری کے ناظرین کی رائے کو مادی اور منفی طور پر متاثر کرنے کی واضح صلاحیت رکھتے تھے۔ ایک طرح سے وہ غیر منصفانہ تھا۔”
آف کام نے کہا کہ براڈکاسٹر کا فرض تھا کہ وہ محترمہ بخاری کو جواب دینے کا ایک مناسب اور بروقت موقع فراہم کرتی، یا اگر اس موقع کی پیشکش کی گئی اور انکار کر دیا گیا، تو یہ پروگرام میں واضح ہونا چاہیے تھا۔
اگرچہ اے آر وائی نے دعویٰ کیا کہ اس نے گل بخاری سے اس کا ورژن حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، آف کام نے کہا کہ “پروگرام نشر ہونے سے پہلے اے آر وائے آف کام کو محترمہ بخاری کا بیانیہ حاصل کرنے کے لیے پروگرام بنانے والوں کی کوششوں کا کوئی دستاویزی ریکارڈ فراہم نہیں کر سکا تھا۔
میر شکیل الرحمان
اے آر وائی نیوز چینل نے اس کے علاوہ جھوٹی خبر چلانے پر جیو نیوز سے بھی جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات پر غیر مشروط معافی مانگ لی تھی۔
معافی نامے میں کہا گیا تھا کہ نیو ویژن ٹی وی لمیٹڈ اپنی طرف سے، اپنے شیئر ہولڈر اور اس کے واحد ڈائریکٹر محمد شہزاد عالم کی جانب سے میر شکیل الرحمان، جنگ اور جیو گروپ کے گروپ چیف ایگزیکٹو اور ایڈیٹر ان چیف سے غیر مشروط طور پر معافی مانگتے ہیں۔ ان بے شمار مکمل طور پر جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات کیلئے جو 2020ء اور 2021ء میں ہمارے مختلف پروگراموں میں ان کیخلاف نشر کئے گئے جن می ذیل میں تفصیل دی گئی ہے۔
اے آر وائی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ہم معافی طلب کرتے ہیں، اس نقصان اور اذیت کیلئے جو میر شکیل الرحمان، ان کے خاندان اور یا ان کے کاروبار کو مکمل طور پر جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات کے نتیجے میں اٹھانا پڑا ہے۔
https://twitter.com/Xadeejournalist/status/1480897045275807752?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1480897045275807752%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Furdu.nayadaur.tv%2Fnews%2F77117%2Fary-apologize-geo-news-false-news%2F
بیان میں کہا گیا تھا کہ ہم نے میر شکیل الرحمان کو قانونی اخراجات ادا کرنے اور ہرجانے کی مد میں خاطر خواہ رقم ادا کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پروگراموں میں لگائے گئے متعدد مکمل طور پر جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات میں انتہائی گہرے، جارحانہ اور تکلیف دہ الزامات شامل تھے۔ مثال کے طور پر یہ کہ میر شکیل الرحمان پاکستان کے غدار تھے۔ انہوں نے دیگر سنگین جرائم کئے تھے اور یہ کہ وہ سزائے موت کے مستحق تھے۔
معافی نامے میں کہا گیا کہ ہم واضح طور پر وضاحت اور تصدیق کرتے ہیں کہ سینیٹ کے ممبر فیصل واوڈا کی جانب سے لگائے گئے بے شمار جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں ہے۔ جو کہ پروگرام میں نشر ہونے کے وقت پاکستان کے وفاقی وزیر تھے۔
اے آر وائی نے واضح کیا ہے کہ یہ ہتک آمیز الزامات جھوٹے تھے ہیں اور ہیں اور انھیں کسی صورت نشیر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم اپنی طرف سے نشر ہونے والے پروگراموں پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں۔
اسحاق ڈار
برطانوی عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کے من گھڑت الزامات عائد کرنے پر اے آر وائی پر بھاری جرمانہ عائد کیا تھا۔ اے آر وائی نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے تحریری طور پر اسحاق ڈار سے معافی بھی مانگ لی تھی۔
نیو ویژن ٹیلی ویژن کی جانب سے اسحاق ڈار سے معذرت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 8 جولائی 2019ء کو دی رپورٹرز پروگرام نشر ہوا جس میں چودھری غلام حسین اور صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار نے حکومت پاکستان کا پیسہ چرایا اور وہ ملک واپس آنے کی اجازت پر چرائی گئی رقم واپس کرنے پر آمادہ تھے۔
ٹیلی ویژن چینل نے اپنے معافی نامے میں لکھا تھا کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کے بینک اکائونٹس کا سراغ لگا لیا گیا ہے جن میں چرائے گئے لگ بھگ ایک ارب ڈالر موجود ہیں۔ پروگرام میں مزید تبصرے کئے گئے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں دلوائیں تاکہ وہ فرد پاکستان سے باہر چلا جائے۔
معافی نامے میں کہا گیا کہ ہم اسحاق ڈار کا موقف تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔ اول یہ کہ انہوں نے حکومت پاکستان کا کوئی پیسہ نہیں چرایا۔ دوئم یہ کہ اسحاق ڈار کے کسی بینک اکائونٹ کا سراغ نہیں ملا۔ نتیجتاً پیسے چرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سوئم یہ کہ اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستان واپیسی کی اجازت ملنے کی شرظ پر پیسہ واپس کرنے کا دعویٰ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ اور چہارم یہ کہ اسحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں نہیں دیں۔
https://twitter.com/Xadeejournalist/status/1450155596410499080?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1450155596410499080%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.thefridaytimes.com%2Fa-look-at-arys-series-of-apologies-by-ary-in-uk-defamation-cases-for-airing-false-allegations%2F
تحریری معافی نامے میں لکھا گیا کہ 8 اگست 2019ء کو پاور پلے پروگرام نشر ہوا جس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب وداخلہ نے دعویٰ کیا کہ اپنے دور میں اسحاق ڈار پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے انتہائی سرگرم اور غیر مناسب طریقے سے یونٹ کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو اہم اداروں کے سسٹم تک رسائی نہیں ہونے دی گئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسحاق ڈار کے اقدامات کا مقصد چودھری شوگر ملز منی لانڈرنگ کیس میں بعض افراد کا تحفظ تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم اسحاق ڈار کا موقف تسلیم کرنے پر تیار ہیں کہ انہوں نے کبھی فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کا انتظام نہیں سنبھالا۔ یونٹ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یونٹ براہ راست سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس لیے اسحاق ڈار نے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے قیام میں کوئی رکاوٹ ڈالی نہ انہوں نے ایسا کوئی کام کیا۔
میاں منشا
اس کے علاوہ اے آر وائی برطانوی عدالت سے نشاط گروپ کے مالک میاں محمد منشا سے بھی کیس ہار گیا تھا۔ اس کیس میں اسے 2 لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ جرمانے کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ کیس میاں منشا کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے آر وائی نے نومبر 2015ء میں اپنے پروگرام ’کب تک‘ میں ان کے خلاف جھوٹی خبر چلائی تھی۔
میاں منشا کا اپنے کیس میں کہنا تھا کہ اے آر وائی نیٹ ورک نے سینٹ جیمز ہوٹل اور کلب لمیٹڈ کی خریداری کے حوالے سے نشاط گروپ کے مالک پر منی لانڈرنگ کا جھوٹا الزام عائد کیا تھا۔
بعد ازاں اے آر وائی نے ایک ماہ بعد میاں منشا کے سینٹ جیمز ہوٹل میں قیام کے حوالے سے ایسی ہی ایک خبر نشر کی۔ سینٹ جیمز ہوٹل نشاط گروپ نے 2010ء میں ممکنہ طور پر چھ کروڑ امریکی ڈالر کے عوض خریدا تھا۔ جولائی 2015ء میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سٹیٹ بینک اسے اس معاملے کی تفصیل طلب کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ یہ بتایا جائے کہ اس خریداری کی رقم بیرونِ ملک کیسے منتقل ہوئی؟
تاہم اس حوالے سے سٹیٹ بینک نے اپنا جواب جمع کرایا اور بتایا کہ اس نے ترسیلات کے حوالے سے کارروائی کے اجازت نامے پر پیش رفت نہیں کی۔
بعد ازاں اس مبینہ منی لانڈرنگ کی خبریں پاکستانی میڈیا میں گردش کرتی نظر آئیں، جن کی میاں منشا کے وکلا کی جانب سے تردید بھی کی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فروری 2016ء میں اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سے اس ہوٹل کی خریداری کیلئے لندن منتقل ہونے والی رقم کے حوالے سے جواب طلب کیا تھا۔
میاں منشا کے اہلِ خانہ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے یہ رقم قانونی طور پر پاکستان میں ہی کمائی تھی اور اس کا ٹیکس بھی ادا کیا تھا اور بعد میں قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے ہوٹل کی خریداری کے لئے لندن منتقل کیا گیا تھا۔