اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے حکومت کو تمام قانونی گنجائشیں بتا دیں۔ انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں۔ رپورٹ رجسٹرار ہائیکورٹ جمع کرائی جائے۔
اس سے قبل تیسری بار کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے پنجاب حکومت کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کہتے تو درخواست خارج کر دیتے ہیں، آپ مخالفت کرتے ہیں تو ذمہ داری آپ کی ہو گی۔
درخواست ضمانت پر عدالت میں ہاں یا ناں کا جواب دیں۔ آپ درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں تو درخواست مسترد کر دیتے ہیں، ہم وزیراعلیٰ پنجاب کو طلب کر لیتے ہیں، عدالت کے ساتھ فیئر رہیں۔ وفاقی حکومت کی یہ حالت ہے کہ انکا اپنا بورڈ ہے مگر زمہ داری نہیں لے رہے اگر آپ زمہ داری نہیں لے رہے تو کچھ خرابی ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ طبی بنیاد پر دائر درخواست کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے، ہم نوازشریف کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتے، آپ میرٹ پر فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورٹ کے ساتھ سیاست نا کھیلی جائے۔
نمائندہ پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ تمام معاملے پر وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت معاملات کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو آپ ذمہ دار ہونگے۔ میڈیکل بورڈ آپ کا ہے آپ نے بتانا ہے۔ ہمیں ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ آپ ریاست ہیں۔ دیگر ہزاروں قیدیوں سے متعلق آپ کیا کہیں گے، ہر کوئی ہمیں الزام دے رہا ہے، یہ کام ریاست کا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون میں یہ ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر کل کو علاج کرانے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے تو کون ای سی ایل سے نام نکالے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام شہریوں کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ رول 143 واضح ہے کہ حکومت کو ایسے معاملات میں قیدی کو رہا کرنے کا اختیار ہے۔
عدالت میں اینکرپرسنز کی طلبی
اس سے قبل چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اینکر پرسنز عدالت آئے ہوئے ہیں، وہ روسڑم پر آجائیں، بڑی معذرت سےآپ کو بلایا ہے، عدالت نےبہت تحمل کامظاہرہ کیا۔
چیف جسٹس نے اینکر پرسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پر آتی ہے، آپ تمام اینکر پرسنز ہمارے لیے قابل احترام ہیں، کیس بعد میں عدالت آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے، جس کا دباؤ عدالت پر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز سے متعلق سوشل میڈیا پر ان کا ٹرائل شروع ہوجاتا ہے، اینکر پرسن سمیع ابراہیم نے وثوق سے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے، کیا وزیراعظم اور عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہیں؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ ہائی کورٹ کے کسی جج تک رسائی نہیں، ایسی باتیں انہیں متنازع بناتی ہیں، آپ اس حوالے سے جواب جمع کرادیں، اینکر پرسنز نے انتہائی اعتماد کے ساتھ ٹی وی پر بیٹھ کر کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالت میں موجود چیئرمین پیمرا کے نمائندے سے کہا کہ آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں، انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے، ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں، قرآن پڑھا ہے؟ اس میں حکم ہے کہ سنی سنائی بات آگے نہ پھیلائیں، یہ بات پیمرا کے بارے میں کی جا رہی ہے، اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں کہ کیا پیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے؟
عدالت میں نامور اینکر پرسن حامد میر بھی پیش ہوئے، انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ مجھے نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی کہ آپ کو بلایا گیا ہے، میں نے پروگرام میں ڈیل کی کوئی بات نہیں کی۔
چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ میں آپ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ آپ نے وکلاء تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت سیاسی معاملات میں الجھنا نہیں چاہتی، سیاستدانوں کے کیسز پر قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے، یہ عدالت مطمئن ہے کہ ہم قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے کل ضمانت دی تو کیا انہوں نے ڈیل کرلی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تمام طلب کیے گئے اینکرز سے تحریری جواب طلب کرلیا ہے، ہمارے پاس اینکرز کے پروگرام کے ٹرانسپکرپٹ کے ساتھ رپورٹ آئی ہے۔