ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے نیوٹن کانام نہ سنا ہو۔ طبیعات کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے اس سائنسدان کا تیسرا قانون بتاتا ہے کہ ہرعمل کا ایک ردعمل ہے۔ اور یہ ردعمل اتنا ہی شدید ہوگاجتنا اس پرعمل کیاجائے۔ اسی قانون کے تناظرمیں برصغیر کی تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو یہاں ایسے حکمران بھے گزرے ہیں جوباہمی بقاؑ اور مذہبی رواداری کے اصولوں پرکاربند رہے. ان میں نمایاں نام مغل حکمران اکبر کاہے جسے تاریخ مغل اعظم کے نام سے یادکرتی ہے. یہی وراثتی حکمرانی جب اورنگزیب عالمگیرتک پہنچتی ہے تومذہبی جبر، عدم رواداری کا دوردورہ ہوتاہے جب باغیوں کو سبق سکھایاجاتاہے۔ اس دورمیں کئی مشہورباغیوں کی سرکوبی کی گئی۔
اس تشدد کے دورمیں پنجاب نے خوب ستم اٹھائے۔ نیوٹن کے قانون کے مطابق جبر کے اس دور میں ردعمل بھی شدید ہونا تھا اسی لئے سکھوں کے رہنما گروتیغ بہادر نے جابر سلطان کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا۔ آپ اپنے قول کے عین مطابق اپنا سردے دیا مگر سرجھکایا نہیں۔
اسی جبر کے خلاف ایک آواز پنجاب سے بھی اٹھتی ہے یہ آوازلاکھوں پنجابیوں کے دلوں کی آوازبن جاتی ہے امن، بھائی چارے ، انسانیت اور سیکولر آوازکودبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگرندارد۔
اس دور میں سادھووؑں اور صوفیوں کو ‘’غیرشرعی’’ رویے اپنانے پر تنقید و ظلم بھی سہنے پڑے ان کی آوازیں حکمران وقت اور اس کے حواریوں کے نظام کوچیلنج کررہی تھیں انہی باغی آوازوں میں بلھے کی آواز نے پنجاب کو جھنجھوڑ کررکھ دیا۔ مذہبی منافرت اور تقسیم کے خلاف نعرہ لگایا۔ انتہائی باغی رویہ اپنانے پر بلھے پرالحا دکے فتوے بھی لگے مرتد اور دہریے کے القابات بھی ملے موجودہ دور کے کچھ ،،پروفیسرحضرات،، کا تو مانناہے کہ اگربلھے کوپڑھایاگیا توہماری نوجوان نسل کے ،،خراب،، ہونے کااندیشہ ہے۔ بلھے کی طبیعت کااندازہ اس کے شعرسے بخوبی لگایاجاسکتاہے
گل سمجھ لئی تے رولا کیہہ
اے رام،رحیم تے مولا کیہہ
پنجاب کی سیکولرریت میں نانک، کبیر، فرید،وارث شاہ ، شاہ حسین المعروف مادھولال حسین اور بلھا نمایاں ہیں۔ اسی لیے تو یہاں روبن ہُوڈ جیسے کردار دٗلابھٹی بھی ملتے ہیں۔ جو جابر سلطان کے جابراحکامات سے انکاری ہیں۔ یہاں کئی بڑے مذاہب اور اصلاحی تحریکیں پنپیں۔ پنجاب کی اس ریت کی تاریخ پرانی ہے ہڑپہ کی تہذیب سے نکلی اس روایت کو ان مذکورہ بالا مشاہیر نے جاری رکھا۔
سچ حق ہے اوراس کا ساتھ دینے والے امرہوجاتے ہیں اسی لیے بلھے نے سرمستی میں کیا خوب کہا
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گورپیاکوئی ہور۔
1849میں تاج برطانیہ کا سورج ، پنجاب میں طلوع ہوا اور یوں مکمل برصغیر اس کی راجدھانی بن گیا راج دور میں اکبر کی طرح سیکولرپالیسیاں بنائی گئیں محکوموں کومذہبی آزادی ملی اسی دورمیں پنجاب کی سیکولرریت خوب پروان چڑھی اب عیسائیت بھی یہاں فروغ پانے لگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیامیں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کوملیں انہی میں سے ایک بڑی تبدیلی ہندوستان کی تقسیم تھی۔
محمدعلی جناح کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کو پڑھی لکھی و ترقی پسند سوچ کی حامل قیادت ملی۔ کچھ سوشل ماہرین کا مانناہے کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں کی اقتصادی ضرورت تھی۔ یوپی، بہار، بنگال اور بمبئ سے کئی سرمایہ کار، جاگیرداراور نوابوں نے یہاں ہجرت کی۔ قیام پاکستان سے ہی بانی پاکستان محمد علی جناح نے اپنی 11اگست کی تقریرمیں ہی ثابت کردیا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگا۔ یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے کوئی مندر جائے، مسجدجائے یاگرجاجائے، تمام شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
افسوس آج صورتحال یکسرمختلف ہے۔ قراردادمقاصد سے شروع ہوئی منافرت کوضیاؑ کی آمریت میں خوب فروغ ملا۔ جب اپنے سیاسی اقتدارکوطول دینے کیلئے مذہب کاسہارالیاگیا۔ موجودہ دورمیں انتہاپسندی کایہ عالم ہے کہ غالب کا شعربیان کرنے پرمشعال جیسے طالب علم کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کردیا جاتاہے۔آج یہی سوچ بلھے کی کافیوں سے خائف ہے۔
بلھے سے جناح تک کے سفرمیں بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں گئی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امرتاپریتم کے آنسو بھی تقسیم ہند کے وقت ہوئے ظلم نہ روک سکے۔ آج ہم سب کیدو بن گئے ہیں ، انسانیت ، رواداری اورباہمی بقاؑ کے اصولوں سے ناواقف ہیں۔ ماضی پرستی نے ہمارے سفر کارخ بھی موڑدیاہے۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ پنجاب کی یہی باغیانہ اورسیکولر ریت کودوبارہ ابھاراجائے اورکلمہ حق کانعرہ پھر سے بلند ہو اور انسانوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکے۔