تین جماعتیں، تین کہانیاں

تین جماعتیں، تین کہانیاں
سیاست ایک کون (دھوکا) گیم ہے۔ فریب ہے۔ ایک ایسا دھوکا ہے جو آپ کی نظروں کے سامنے آپ کی بیش قیمت چیزیں (جیسے ووٹ) آپ سے لے جائے اور آپ کو خبر تک نہ ہو کہ آپ کو کن کن حربوں سے وصول کیا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں یہ کون گیم مختلف طریقوں سے کھیلی جاتی ہے۔ ویسے تو پاکستان میں ان گنت طریقوں سے سیاست کی گیم کھیلی جاتی ہے۔ مگر تین بڑی جماعتوں کی تین بڑے حربے سر فہرست ہے۔

ان میں سب سے پہلے سب سے قدیم قیام رکھنے والی جماعت، بڑی جدوجہد سے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو فہرست میں ‎سب سے اَوّل رکھیں تو غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ دھوکے، فریب اور چال بازیوں میں یہ سب سے آگے ہے۔

محترم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ جماعت پچھلے دس برسوں سے سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے۔ جس میں پانچ سال وہ وفاق کے سلطان بھی رہے ہیں۔ مگر کچھ کیے بغیر سندھ کے لوگوں کو اپنی چالوں سے میٹھی میٹھی باتیں اور خالی وعدے کر کے ووٹ حاصل کر رہے ہیں۔ دو زرداری سندھ کے تقریباً اڑتالیس ملین لوگوں پر بھاری صرف اس لئے ہو رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی کون گیم کے ہتھیار دو بھٹوؤں کو بنا رہے ہیں۔ محترم بھٹو صاحب اور محترمہ شہید بی بی کا نام استعمال کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ اور خود منی لانڈرنگ میں مصروف ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان پیپلز پارٹی دو ایسی شخصیات پر کھڑی ہے جو یہ فانی دنیا چھوڑ چکے ہیں، اور اب لوگوں کو بھی 'بھٹو زندہ ہے' کے نعرے کو جان لینا چاہیے۔



دوسری سب سے بڑی جماعت، قومی اسمبلی میں بھی دوسرے نمبر پر نشستیں حاصل کرنے والی اور اپنے فریب، چال بازیوں سے بھی دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ جو کئی دہائیوں سے پیارے پاکستان پر اپنی حکومت جھاڑ کر، جیسے میٹرو بس، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم اور کئی دیکھنے میں اعلیٰ خواب چمکا کر، باقی عوام کا پیسہ خود وصول کر کے عوام کی آنکھوں میں دھندلا خواب سجا رکھا ہے۔

یہ جماعت کون گیم کھیلنے میں دوسرے نمبر پر اس لئے آتی ہے کیونکہ یہ پیسہ تو بہت کھاتی ہے اور باہر جائیدادیں بھی خوب بناتی ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح صرف کھاتی نہیں کچھ بچا ہوا اپنی دیس کے لوگوں پر بھی لگاتی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اعلیٰ لیڈروں کے نام نہیں جن کو وہ اپنی کون گیم کا ہتھیار بنائے۔ اس لئے ان کی چال اس طرح چلتی ہے کہ یہ اگر ستر فیصد کھاتے ہیں تو تیس فیصد کا کام بھی کرتے ہیں اور لوگوں کی آنکھوں میں یوں کون گیم کا جادو چلاتے ہیں۔

اب چال بازیوں اور فریبوں میں اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی تیسرے نمبر پر آتی ہے۔

یہ تیسرے نمبر پر اس لئے آتی ہے کیونکہ اس کو حکومت کا منصب سنبھالے زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے مگر یہ عوام کی آنکھوں میں اونچے خواب کئی سالوں سے دکھا رہے ہیں۔ ویسے تو پاکستان تحریک انصاف بائیس سالوں سے جدوجہد کر رہی ہے مگر 2013 میں تبدیلی کا نام لے کر پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔ اس تحریک کو عمران خان نے مزید لگن سے چلایا تو پی ٹی آئی اب پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

اونچے خواب دکھانے میں یہ جماعت کسی سے کم نہیں۔ یہ اپنی کون گیم میں عوام کو بہت سے چمکتے خواب دیکھا کر اور بڑی بڑی باتیں کر کے بالآخر حکمرانی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ نئے حربے اور نئے طریقوں سے یہ عوام میں ہمیشہ مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اور اب جب پاکستان تحریک انصاف کچھ نہیں کر پائی اور عوام کی چیخ و پکار بڑھتی جا رہی ہے تو نئے وزیر اعظم عمران خان صاحب "گھبرانا نہیں ہے" کہہ کر عوام میں اب بھی اپنی باتوں سے مقبولیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

پہلے سو دنوں میں کچھ خاص کارکردگی نظر تو نہیں آئی مگر اپنے آپ کو نئی سوچ اور نئے پاکستان میں کچھ الگ کر کے دکھانے کی ایک اور چال ضرور نظر آئی۔ مگر ان سے عوام کی امیدیں ابھی بھی وابستہ ہیں اور ہمیں بھی امید ہے کہ یہ ہی پاکستان کے لئے کچھ کر گزریں۔

یہ ہیں پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں جن کی اپنی اپنی کون گیم اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کھیلنے کا اپنا اپنا انداز ہے۔

عروسہ ایمان ایل ایل بی کی شاگر کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اپنے احساسات و جذبات کو الفاظوں میں قید کرنے کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں بڑھتے تنازعہ اور مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ایک بہت سی چھوٹی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ نا کر سکو تو دل میں ہی بری چیز اور کسی برے عمل کو برا کہو۔ تو بس یہ الفاظوں کی جنگ کا یہی مقصد ہے۔