ہمارے برے حالات کے ذمہ دار سیاست دان ہیں یا ہم خود؟

جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں، اپنے فائدے کے لئے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور دوسروں کے حق کو پامال کرتے ہیں تو کیا ہم اپنے ہی ملک کی تباہی کا سبب نہیں بن رہے؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں۔

ہمارے برے حالات کے ذمہ دار سیاست دان ہیں یا ہم خود؟

اکثر اوقات ہم ملکی مسائل کا الزام اپنے سیاست دانوں اور حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں۔ عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان جیسے نام ہمیشہ زیر بحث رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہم اس ملک کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ لیکن کیا یہ الزام درست ہے؟ کیا واقعی یہ سب ہماری تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں؟ یا پھر اس سے بھی زیادہ پیچیدہ حقیقت ہے کہ ہم خود، یعنی عوام، اس خرابی کے ذمہ دار ہیں؟

یہ سوال میں بار ہا خود سے کرتا ہوں اور ہر بار مجھے یہی جواب ملتا ہے کہ ہاں، ہم خود اپنی مشکلات کے ذمہ دار ہیں۔ میں روزمرہ زندگی میں لوگوں سے ملتا ہوں، ان کے رویے دیکھتا ہوں اور ان سے یہی نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ ہمارے مسائل کی جڑ ہمارے اپنے اعمال اور رویے ہیں۔

چند دن پہلے میں پشاور میں ایک سفر کے دوران ایسی ہی کچھ تلخ حقیقتوں سے دوچار ہوا۔ زکوڑی شریف پل سے کوہاٹ پل کی طرف جاتے ہوئے میں نے ایک ٹیکسی لی۔ ڈرائیور اور ایک مسافر کے درمیان کرائے پر بحث شروع ہو گئی۔ مسافر کا مؤقف درست تھا لیکن ڈرائیور زیادہ پیسے مانگ رہا تھا۔ یہ بحث تلخی میں بدل گئی اور آخرکار مسافر کی بات مان لی گئی۔ لیکن ڈرائیور غصے میں آ گیا اور اس نے پختونوں اور مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔

میں نے غصے کے باوجود خاموشی اختیار کی۔ ایک اور مسافر نے ڈرائیور کو خاموش رہنے کی تلقین کی، جس پر ڈرائیور اس سے بھی الجھ پڑا اور اس بوڑھے شخص کو بھی گالی دی۔ میں نے جب ڈرائیور سے کہا کہ آگے جا کر گاڑی روک دو تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ باڑہ لے جا کر طالبان کے حوالے کر دوں گا۔ مجھے اس کی دھمکی پر ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔ میں خاموش رہا اور یوں میرا سفر اختتام پذیر ہو گیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

جب پل کے نزدیک پہنچا تو میں نے فروٹ خریدنے کا ارادہ کیا۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور پھل فروشوں نے سڑک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ٹریفک پولیس کی گاڑی ایک طرف کھڑی تھی اور سپاہی تربوز کھا رہے تھے۔ جب میں نے فروٹ خریدا تو وہ کھانے کے قابل نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میرے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے فروٹ واپس کر دیا کیونکہ میں بحث میں پڑنے کا قائل نہیں ہوں۔

اس کے بعد میں اڈے پر پہنچا تو گاڑیوں کے ڈرائیورز کی بدتمیزی جاری تھی۔ علاقے کی کوئی گاڑی نہیں تھی۔ لمبے انتظار کے بعد ایک گاڑی ملی۔ روانگی کا وقت آیا تو کرایہ جو پہلے ہی زیادہ تھا، مزید بڑھا دیا گیا۔ ڈرائیور نے یہ عذر دیا کہ واپسی خالی ہو گی، اس لیے زیادہ پیسے لے رہا ہے۔ یہ سب عید کے موقع پر ہوتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

مسافروں نے تھوڑی بحث کی، میں نے بھی حصہ لیا، لیکن ڈرائیور نے جس کی بڑی داڑھی تھی، اور جس میں اسلام کا نام و نشان نہیں تھا، نے گاڑی نہ چلانے کا اعلان کر دیا۔ ہمیں مجبوراً ان کی شرائط ماننی پڑیں کیونکہ ہم ڈھیٹ نہیں تھے۔

یہ واقعات میری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں اور ان میں کہیں بھی سیاست دانوں کا ذکر نہیں ہے۔ یہ تینوں معاملات عام لوگوں کے ہیں، وہی لوگ جن کا ہم سامنا کرتے ہیں۔ ہم خود ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ غلطی کس کی ہے؟ کیا صرف سیاست دان اور حکمران ہی اس ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں؟ یا پھر ہم خود بھی اپنی تباہی کے حصہ دار ہیں؟

جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں، اپنے فائدے کے لئے دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور دوسروں کے حق کو پامال کرتے ہیں تو کیا ہم اپنے ہی ملک کی تباہی کا سبب نہیں بن رہے؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں اور کیسے اپنے رویوں کو بدل کر اس ملک کو ایک بہتر جگہ بنا سکتے ہیں۔ شاید ہمیں اپنی ذات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دے سکیں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔