'ڈی جی ISI کا پیغام فوج میں موجود عمران خان کے حامیوں کے لئے تھا'

'ڈی جی ISI کا پیغام فوج میں موجود عمران خان کے حامیوں کے لئے تھا'
نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا پریس کانفرنس کرنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ پریس کانفرنس میں دیا جانے والا پیغام خان صاحب کے لیے تو تھا ہی مگر میرا خیال ہے کہ یہ فوج کے اپنے لیے بھی تھا۔ فوج کے اندر کے معاملات ابھی تک حل نہیں ہوئے۔ یہ پیغام فوج کے اندر والے لوگوں کے لیے بھی تھا جو پریشر ڈال رہے ہیں کہ آرمی مداخلت کرے اور عمران خان کی سائیڈ لے۔ فوج نے کہا ہے کہ ہم نے ترقیاں بھی ان لوگوں کو دی ہیں جو سیاست سے باہر رہنے والی پالیسی پر متفق ہیں۔ عمران خان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم سیاسی طور پر کسی کے ساتھ نہیں کھڑے لیکن اگر حکومت بلائے گی تو ہم آئینی طور پر حکومت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان نے مسٹر ایکس مسٹر وائی اور ڈرٹی ہیری کے بعد آج ان کرداروں کے نام لے لیے ہیں۔ انہی کے بارے میں عمران خان کہ رہے تھے کہ جب سے وہ اسلام آباد آئے ہیں تو ہارڈ لائن لی جا رہی ہے۔ لانگ مارچ سے متعلق خان صاحب کا اندازہ یہ ہے کہ سیاسی طور پر زندہ رہنا ہے اور حکومت کو دباؤ میں رکھنا ہے۔ پرامن صرف اس لیے کہتے ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ نہ روکے۔ اسی لیے انہوں نے تفصیلی منصوبہ نہیں بتایا۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک دفعہ اسلام آباد پہنچ جائیں پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ 4 نومبر تک چلے گا۔ عمران خان کی یہی کوشش ہوگی کہ اس سے پہلے بیک ڈور چینل سے معاملات طے پا جائیں جو نہیں طے پائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب تشدد کے بغیر اپنا مقصد نہیں حاصل کر پائیں گے لیکن وہ پہل نہیں کریں گے۔ حکومت بھی نہیں پہل کرے گی۔ متعین جگہ سے اگر ہٹتے ہیں تو پولیس روکے گی اور اس صورت میں تصادم ہو سکتا ہے۔ خان صاحب اگر اس راستے پر لے جانا چاہیں تو یہ مشکل نہیں ہوگا۔ لاکھ سے زیادہ بندے لے جائیں تو ہو سکتا ہے حکومت مذاکرات پہ تیار ہو جائے۔ ممکن ہے انتخابات جلدی ہو جائیں۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان کے ذہن میں طیب اردگان ہیں۔ لانگ مارچ میں اگر نظم و ضبط ٹوٹتا ہے تو بہت خطرناک صورت حال بن جائے گی اور اس کے نتیجے میں حکومت نہیں بلکہ ریاست خطرے میں ہوگی۔ اس صورت میں عالمی طور پر مداخلت ہو سکتی ہے۔ عمران خان ریاست کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، جہاں ایم آئی سکس ہے وہاں ریاست کے خلاف نہیں بلکہ حکومت کے خلاف احتجاج ہوتے ہیں۔

پنجاب میں 70 سال میں پہلی مرتبہ فوج کے خلاف وہ سینٹی مںٹ پیدا ہوا ہے۔ اس سے پہلے بنگالیوں، مہاجروں، بلوچوں، پشتونوں کو فوج سے شکوہ ہوتا تھا۔ عمران خان فوج پر قبضہ کرکے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں یہ گرین انقلاب ہے۔ سرخ انقلاب میں آپ اداروں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ فاشسٹ سوچ کے ساتھ عمران خان ریاست پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ دو تہائی اکثریت چاہتے ہیں اور اسی لیے جلد انتخابات مانگ رہے ہیں۔ وہ دوبارہ کمزور حکومت نہیں بنانا چاہ رہے۔

عمران خان کی سٹریٹیجی فوج میں پھوٹ ڈالنے کی ہے۔ دوسری جانب سے میسج آیا ہے کہ ہم متحد کھڑے ہیں اور اگلے پندرہ بیس سال تک ایسے ہی رہیں گے۔ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو آرمی بالکل مداخلت نہیں کرے گی۔ فوج کو سمجھ آ گئی ہے کہ اس ملک کو اب اس طرح نہیں چلایا جا سکتا جیسے وہ اب تک چلا رہے تھے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ حکومت اس امید پہ ہے کہ شاید عمران خان سے کچھ غلطیاں ہوں۔ پھر وہ انتظار کر رہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم کے آنے سے کچھ فرق پڑے گا۔ عمران خان دو تہائی اکثریت لے بھی سکتے ہیں۔ ایک دور میں نواز شریف نے بھی لی تھی۔ پاکستان کے حالات جتنے خراب ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اکیلا عمران خان یا نواز شریف اس ملک کے حالات نہیں بدل سکتا، ایک قومی حکومت بنے اور پانچ سال تک چلے تب کچھ امید پیدا ہو سکتی ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی تھے۔