سرخ لکیریں، صلیبیں، فردوس اعوان

سرخ لکیریں، صلیبیں، فردوس اعوان
آج نجانے کیوں کینیڈا کی ممتاز شاعرہ، ماگریٹ ایٹ وُڈؔ کی ایک نظم یاد آ گئی، جس کا بہت خوبصورت ترجمہ کینیڈا ہی کے ممتاز ترجمہ نگار ضمیر احمد مرحوم نے کیا تھا۔ اس نظم کا عنوان ہے، ’’اخباروں کو پڑھنے میں بھی خطرہ ہے‘‘۔ یہ سرخی پڑھتے ہی ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس تحریر کا عنوان، ہم، اخباروں میں لکھنے میں بھی خطرہ ہے، چن لیں۔ جس پر ہمیں کچھ سرخ لکیریں یاد آ گئیں۔

سو اس نظم کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس کی ابتدائی سطریں یوں ہیں۔

میں جب ریت میں ننھے مُنّے محل بنایا کرتی تھی

اُس دم بلڈوزر تیزی سے

گڑھوں میں لاشیں بھرتے تھے

جب میں نہا کر بال بنا کر پڑھنے جایا کرتی تھی

سڑک پہ سیمنٹ کی درزوں پر

قدم مرے جب پڑتے تھے

درزوں میں چھپے سے، سُرخ سُرخ بم پھٹتے تھے

آخری سطریں یوں ہیں۔

یہ میر ی خاموش نگاہیں، جس شے پر بھی پڑ جائیں، اس کی ہیئت بدل کے رکھ دیں

اس کو بنا دیں، کالے دھبوں والی جنگ کی اک تصویر

کیسے اپنے آپ کو روکوں؟

اخباروں کو پڑھنے میں بھی خطرہ ہے

یہ نظم پڑھ کر جانے کیوں ذہن میں آیا کہ اب شاید ہمارے وطن میں پہل دوج کا کھیل بھی سرخ لکیروں سے بنے خانوں کا کھیل بن گیا ہے۔ ایک جست لگائی اور کسی خانے میں قدم پڑتے ہی آپ بھک سے اُڑ گئے۔ دوسرا کھلاڑی ذرا محتاط ہو کر اچھلا تو اگلے خانے میں پیر رکھتے ہی اپنی ٹانگیں گنوا بیٹھا۔ ابھی قلم یہیں تک پہنچا تھا کہ مارگریٹ ایٹ وُڈ کے سڑکوں کی درزوں میں چھُپے سرخ بموں نے یکا یک فیض صاحب کی بے مثل نظم، ’دریچہ‘ یاد دلا دی۔ آپ کو بھی یاد ہوگی۔ ہر سطر لہولہان اور خوں رنگ ہے۔

گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچہ میں

ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کو رنگ لیے

ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے

کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں، کسی پہ قتلِ مہہِ تابناک کرتے ہیں

کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں

پھر، ڈرتے ڈرتے اخبار کھولتے ہوئے، پاکستانی وزیرِاعظم کی معاونِ خاص فردوسؔ عاشق اعوان کو بے صفائی و شہادت، اچانک برطرف کیے جانے کی شہ سرخی سامنے آگئی۔ چونکہ ہم اب سے پہلے یاد آئی ہوئی نظموں کے سرور میں تھے تو یوں محسوس ہوا کہ، فردوس اعوان بھی کسی غیر مرئی سرخ صلیب پر قربان کر دی گئی ہیں۔ جیسے اب سے پہلے ایک سابق وزیرِ اطلاعات فوادؔ چودھری بھی ایسی ہی کسی صلیب پر مصلوب ہوگئے تھے۔ ہمیں نہ فرودس اعوان سے ہمدردی ہے اور نہ ہی فواد چودھری سے ۔ ہم گاہے گاہے یہ یاد کرتے رہتے ہیں کہ دونوں ہی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سے رُلتے ڈُلٹے آئے تھے اور سیاسی وزیرِاعظم عمران خان کو تحفہ میں پیش کیے گئے تھے، کہ شاید انہیں اس طرح کچھ تجربہ کار لوگ مل جائیں اور وہ تحفہ میں ملے اقتدار کو ٹھیک سے چلا سکیں۔

لگتا ہے کہ عمران خان تو روحانیت اور عوامیت کے سرور میں مست، ریاستِ مدینہ کے خواب دیکھتے اور دکھاتے، مراقبے میں ایسے کھو گئے ہیں کہ انہیں اپنے ہر دریچہ میں گڑی دیدہ اور نادیدہ صلیبوں کا دھیان ہی نہیں ہے۔ وہی صلیبیں جن پر ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف مصلوب ہوئے تھے۔ نواز شریف تو دوبار ہوئے تھے۔ دوسری بار تو نواز شریف، خود ہی سولی پر چڑھ گئے تھے۔ شاید انہیں یہ گمان ہو کہ چونکہ وہ ایک دفعہ مصلوب ہو کر بھی زندہ رہے تھے تو شاید دوبارہ بچ کر امر ہوجائیں۔ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ صلیبب سے اتر کر تو صرف ایک ہی مسیحا امر ہو سکے ہیں، ہر ایک کو وہ منصب کہاں نصیب ہو سکتا تھا۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان تو خود اپنی ہی صلیب اپنے کاندھو ں پر اٹھائے کشاں کشاں یا تو راہِ حق پر شہید ہونے چل نکلے ہیں۔ یا صلیبوں پر لٹکے آسیبوں نے انہیں حواس باختہ کر دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیاسی وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی، سیاسی فردوس اعوان کی جگہ ایک غیر سیاسی، سابقہ معزز عسکری عہدے دار کو فائض کر دیا۔ اور یہ بھی نہ سوچ پائے کہ وہ ایسا کر کے اس نظام کی پردہ دری کر رہے ہیں، جس کی پردہ داری کی اہم ذمہ داری انہیں عطا کی گئی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نیم روحانیت اور نیم تصوف کا پیرو ہونے، پر انہیں داتا صاحب کی کشف المحجوب یاد آئی ہو جس کے ذریعے داتا صاحب نے اہم ترین حجابات کھولے تھے۔ عمران خان کو شاید اب تک پاک پٹن والوں نے یہ بھی نہیں سجھایا کہ کشفِ حجاب، یا درونِ خانہ رازوں کی پردہ کشائی صرف اور صرف داتا صاحب کا منصب ہے۔

کورونا کی وبا نے عمران خا ں کو کچھ دن کی مہلت فراہم کی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی کی ڈھیل کا شکر کرتے ہوئے اپنے بل بوتے پر پاکستان کے سیاسی نظام کو درست کریں۔ اور آئین اور پارلیمان کو وہ بالا تری دلوانے کی کوشش کریں جو پاکستانیوں کا حق ہے۔ اگر یہ نہیں ہو سکتا تو پھر بہت ہی احترام سے نظامِ حکومت ان صاحبان ِ فکر اور مقتدر لوگوں کو واپس کر دیں، جنہوں نے انہیں یہ ذمہ داری مستعار دی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ مودبانہ طور پر یہ بھی کہہ دیں کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اور کرے تو ڈانڈا باجے‘‘۔ اگر وہ یہ نہ کر سکیں تو انہیں ہوشیار رہنا چاہیے کہ ان کے دریچوں میں گڑی صلیبیں اتنی گھنی ہوتی جائیں گی کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔ ایسا دشوار کہ کوئی وینٹی لیٹر بھی کام نہیں آئے گا۔

منیر پرویز سامیؔ، مصنف، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ وہ کینیڈا میں آزادی اظہار کی انجمن پین کینیڈا کے سابقہ بورڈ ممبر بھی رہے ہیں۔