Get Alerts

گمنام تخلیق کار کی رحلت

گمنام تخلیق کار کی رحلت
محترم استاد حافظ ثناء اللہ خان صاحب کے ساتھ اکثر اوقات واٹس ایپ کے ذریعے سے رابط رہتا تھا، وہ روزانہ یا ہر دوسرے تیسرے دن کچھ نہ کچھ بھیج دیا کرتے تھے۔ کبھی فون بھی کر لیتے اور پھر لمبی گفتگو ہوتی، ملکی حالات اور صوبے کے مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا۔ اپنے شاگردوں کی کامیابیوں میں خصوصی طور پر دلچسپی لیتے تھے لیکن شاید مجھے خیال نہیں رہا کچھ دنوں سے ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ جمعہ کی صبح جب اٹھا تو واٹس ایپ میں یہ پیغام پہلے سے پڑا ہوا تھا کہ ’حافظ ثناء اللہ خان صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔’ ان للہ وانا الیہ راجعون۔
حافظ ثناء اللہ خان خیبر پختونخوا کے سنئیر ترین صحافی اور مقامی انگریزی روزنامہ دی فرنٹیر سٹار کے چیف ایڈیٹر تھے۔ وہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کونسل (سی پی این ای) کے سینئر ممبر اور خیبر پختونخوا کے صدر بھی تھے۔ مرحوم صدارتی ایوارڈ یافتہ بھی تھے۔ ان کی عمر قریباً 80 سال کی لگ بھگ تھی۔
مرحوم حافظ ثناء اللہ خان کا تعلق بنیادی طورپر کوہاٹ سے تھا تاہم انہوں نے ساری زندگی پشاور میں گزاری اور یہیں سے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ اور اکنامکس کے مضامین میں ڈبل ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر رکھی تھیں۔
یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد وہ کچھ عرصہ برطانیہ میں بھی مقیم رہے جہاں سے وہ سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے لئے بطور نمائندہ کام کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے انگلینڈ سے ایم ایس بھی کر لیا۔ حافظ قران ہونے کی وجہ سے ان کا مذہب کی طرف رجحان زیادہ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ عرصہ برطانیہ میں مقیم نہیں رہ سکے حالانکہ ان کے پاس وہاں مستقل رہنے کے بہترین مواقع موجود تھے لیکن رخت سفر باندھ کر واپس پاکستان کی جانب کوچ کیا اور پھر آخری دم تک کبھی ملک سے ناطہ نہیں توڑا۔
وہ ہمیں اکثر کہا کرتے تھے کہ انگلینڈ میں ان کے پاس ہمیشہ ہمیشہ مقیم رہنے کے بہترین مواقع تھے۔ اگر وہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کی درخواست دیتے تو بغیر کسی وجہ کی منظور ہو جاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے ملک واپس جانے کو ترجیح دی۔
حافظ ثناء اللہ خان کا صحافتی کیرئیر لگ بھگ کوئی آدھی صدی پر محیط رہا اور اس دوران وہ کئی ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور خبر رساں اداروں کے ساتھ منسلک رہے۔ مرحوم اخبار نوسیوں کے اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو صحافت کو عبادت اور مشن کے طورپر سمجھتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب اس وقت کے پشاور میں اول تو پیشہ ور صحافیوں کی کمی تھی اور پھر جو صحافی اس پیشے سے منسلک تھے ان میں تعلیم یافتہ اخبار نویسوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ حافظ ثناء اللہ خان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے اس زمانے میں ناصرف صحافت کو بطور مضمون پڑھا تھا بلکہ اس میں ڈگری بھی حاصل کی تھی۔ انہیں زمانہ طالب علمی کے دوران ہی صحافت کا چسکا لگ گیا تھا جس کا وہ کبھی کبھار اظہار بھی کرلیا کرتے تھے۔
وہ کئی سال تک پشاور میں پاکستان ٹائمز کے بیوروچیف رہے۔ انہوں نے کئی اہم عالمی صحافتی اداروں پی پی آئی، بی بی سی اور برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے ساتھ بطور نمائندہ کام کیا۔
ان کے کریڈٹ پر سب سے بڑا کارنامہ اس وقت کے صوبہ سرحد میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھنا ہے۔ حافظ ثناء اللہ خان کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے سن 1985 میں جامعہ پشاور میں پہلے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھ دی گئی جبکہ وہ اس کے پہلے بانی چئیرمین مقرر ہوئے۔ حافظ ثناء اللہ خان بتایا کرتے تھے کہ شعبہ صحافت کے قیام میں اس وقت کے گورنر صوبہ سرحد جنرل (ر) فضل الحق نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
ابتدا میں شعبہ صحافت میں چھ مہینے کے ڈپلومہ کورسز پڑھائے جاتے تھے لیکن کچھ ہی سالوں کے بعد وہاں سے باقاعدہ ایم اے جرنلرم کی دو سالہ ڈگری کورسز کا اجراء کر دیا گیا۔ یہ اس وقت صوبے کی کسی یونیورسٹی میں پہلا جرنلزم ڈیپارٹمنٹ تھا۔ پشاور یونیورسٹی کا شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں اب پی ایچ ڈی کے کورسز بھی پڑھائے جارہے ہیں۔
نوے کے عشرے میں جب حافظ ثناء اللہ خان یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے پشاور سے فرنٹیر سٹار کے نام سے ایک انگریزی روزنامہ کا آغاز کیا جس سے وہ آخری دم تک منسلک رہے۔
حافظ ثناء اللہ خان میرے ہر لحاظ سے شفیق استاد اور اتالیق تھے۔ میں پشاور یونیورسٹی جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں بھی ان کا شاگرد تھا اور جب یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد صحافت شروع کی تو تب بھی انہی کے اخبار دی فرنٹیر سٹار سے ابتدا کی جہاں قریباً تین سال تک ان کے ساتھ بطور رپورٹر کام کیا۔ اس دوران مجھے حافظ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔
مرحوم ثناء اللہ خان انتہائی شریف الفنس، درویش صفت اور سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ کبھی ان کے منہ سے سخت یا کڑوی بات نہیں سنی۔ دفتر میں بیشتر اوقات مطالعہ یا قرآن پاک کی تلاوت کرلیا کرتے تھے۔
اخبار شروع کرنے کے بعد ان پر کچھ مشکل حالات بھی آئے جس کی وجہ سے وہ کچھ عرصہ سخت ڈپریشن کا شکار بھی ہوئے۔
مرحوم کے اکثر شاگرد سمجھتے ہیں کہ حافظ ثناء اللہ شریف انسان تھے جبکہ اخبار چلانا ان کی بس کی بات نہیں تھی کیونکہ اشتہارات حاصل کرنے کے لئے آپ کو ہر قسم کا حربہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کبھی چاپلوسی اور بلیک میلنگ سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اخبار نکالنے کا منصوبہ ان کا زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوا۔ دوسری طرف حافظ ثناء اللہ نے اپنی زندگی کی تمام تر جمع پونچی اور اثاثے اخبار میں لگائے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ٹائمز سے ریٹارمنٹ پر ان کو بیس لاکھ روپے ملے اور یہ ساری رقم اس وقت اخبار میں لگائی گئی۔
حافظ ثناء اللہ خان صاحب مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ صوبائی وزرات اطلاعات میں اشتہار کے بدلے ’کمیشن’ مانگا جاتا ہے کہ اگر میں کل کو ان کو کمیشن دے دوں تو مجھے سب سے زیادہ اشتہارات مل سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ساری زندگی میرٹ پر صحافت کی ہے اور کبھی ناجائز فائدے کے لئے قلم کا استعمال نہیں کیا لہذا اب عمر کے اس حصے میں اپنی قیامت خراب نہیں کرنا چاہتا۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔