نواز شریف باہر جائیں یا واپس جیل، فرسودہ نظام کے اختتام کی جانب سفر شروع ہو چکا

نواز شریف باہر جائیں یا واپس جیل، فرسودہ نظام کے اختتام کی جانب سفر شروع ہو چکا
بساط سیاست کب پلٹ جائے پتہ نہیں چلا کرتا۔ یہ بساط دو طریقوں سے پلٹا کھاتی ہے۔ اول جب منتخب حکومت ملکی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے اور معیشت کا ستیاناس ہو جائے تو عوامی دباؤ اور اپوزیشن کی تحاریک یا تو حکومتوں کو گھر بھیج دیا کرتی ہیں یا پھر عام انتخابات میں عوام ووٹ کی قوت سے ایسی حکومتوں کو اقتدار سے باہر نکال پھینکتے ہیں۔ دوسرا طریقہ گوئبلز اور ایڈورڈ برنیز کی پراپیگنڈا تھیوریوں کی مدد سے پس پشت قوتوں کی جانب سے مصنوعی تبدیلی لاتے ہوئے سیاسی عمل کو مصنوعی طریقے سے سبوتاژ کرتے ہوئے انتخابات سے حسب منشا نتائج حاصل کر کے ایک مصنوعی سیاسی عمل تخلیق کرنے کا ہوتا ہے۔

اس دلدل سے نکلنا مشکل ہوتا جا رہا ہے

پاکستان میں ہمیشہ سے منتخب حکومتوں کو اسی دوسرے طریقے کی مدد سے رخصت کر کے گھر بھیجا جاتا رہا اور اپنی مرضی کا سیاسی عمل تخلیق کرنے کے ناکام تجربے کو بارہا دہرایا جاتا رہا۔ فاطمہ جناح کو انتخابات میں دھاندلی سے ہروانے تک شیخ مجیب کو مشرقی پاکستان سے ملے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار، نوے کی دہائی میں منتخب حکومتوں کو گھر بھیجنا اور پھر مشرف کے ناکام فارمولے کے بعد پیچھے سے بیٹھ کر سیاسی عمل کو قابو کرنے کی مقتدر قوتوں کی کوششوں نے پاکستان کو معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کی ایک ایسی دلدل میں لا پھنسایا ہے جس سے نکلنا اب آہستہ آہستہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

عمران خان کو ایک ایسے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا جو مافوق الفطرت قوتوں کا مالک تھا

مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت کے ساتھ جس انداز سے پانچ سال تک تضحیک اور تذلیل کا رویہ برتا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پہلے نواز شریف کو برنیز کی پراپیگینڈا کی تھیوری استعمال کرتے ہوئے ایک ولن اور غدار وطن کے طور پر پیش کیا گیا اور اس مقصد کیلئے الیکٹرانک میڈیا اور ایسے ٹی وی اینکر جن کو صحافت کا بھی علم نہیں ہے استعمال کیے گئے۔ پھر عمران خان کو ایک ایسے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا جو مافوق الفطرت قوتوں کا مالک تھا اور جس نے اقتدار میں آتے ہی جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک کر دینا تھا۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پس پشت قوتوں کی ایما پر ملک میں جوڈیشل مارشل لا نافذ کیا اور نواز شریف چند ماہ میں نہ صرف وزارت عظمیٰ اور اپنی جماعت کے سربراہ کے عہدے سے نااہل کر دیا گیا بلکہ اسے مقتدر قوتوں کے آگے سر نہ جھکانے کے باعث کال کوٹھڑی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

مسلم لیگ نواز پنجاب کی دھرتی سے جنم لینے والی پہلی مرکزی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت بن گئی

اس اثنا میں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے بیٹوں سے بڑھ کر اپنے باپ کا ساتھ دیا اور پس پشت قوتوں کے مقابلے میں پہلی مرتبہ پنجاب کی دھرتی پر ایک مضبوط اور توانا بیانیہ کھڑا کر دیا۔ مسلم لیگ نواز پنجاب کی دھرتی سے جنم لینے والی پہلی مرکزی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت بن گئی اور مقتدر قوتوں کو انتخابات میں اسے شکست دینے کیلئے سارے انتخابی عمل کو متنازع طریقے سے تحریک انصاف کے حق میں کرنا پڑ گیا۔



یہ مسلم لیگ نواز کی پہلی کامیابی تھی کیونکہ اس سے قبل پہلے کبھی بھی مقتدر قوتوں کو اس قدر سامنے سے آ کر انتخابی نتائج کو مینیج نہیں کرنا پڑا تھا۔ بہرحال جیسے تیسے انتخابی نتائج حاصل کیے گئے اور عمران خان کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ نواز شریف کو سلاخوں کے پیچھے بند کیا گیا اور اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ سیاست ترک کر کے بیرون ملک چلا جائے۔ اسی اثنا میں پیپلز پارٹی جس نے اس سارے عمل میں مقتدر قوتوں کا ساتھ دیا تھا اسے پہلا دھچکا انتخابی نتائج کی صورت میں لگا جب وعدے کے برخلاف اسے پنجاب میں نشستیں نہ دی گئیں۔

حکومتی معاملات میڈیا یا پراپیگینڈے کے دم پر نہیں چلا کرتے، انہیں حل کرنے کیلئے اہلیت، قابلیت اور وژن درکار ہوتا ہے

دوسرا دھوکہ آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف جعلی بنک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کے مقدمات کا قیام تھا۔ جوں جوں یہ مقدمات قائم ہوتے گئے توں توں پیپلز پارٹی اور مقتدر قوتوں میں دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ اس دوران عمران خان نے ایک تابعدار وزیر اعظم کے طور پر حکمرانی کی عنان سنبھالی اور اپنی کابینہ کے ہمراہ کام شروع کر دیا۔ مقتدر قوتوں کو گمان تھا کہ میدان خالی کر کے انہوں نے تحریک انصاف کو موقع فراہم کر دیا ہے اور اب اسے صرف معیشت کو مظبوط کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ملکی اور حکومتی معاملات میڈیا یا پراپیگینڈے کے دم پر نہیں چلا کرتے اور انہیں حل کرنے کیلئے اہلیت، قابلیت اور وژن درکار ہوتا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کر کے برآمدات بڑھانے کا تجربہ ناکام ثابت ہوا اور اس تجربے نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی



عمران خان سے لے کر وزیر خزانہ اسد عمر تک سب افراد محض دعوے ہی کرتے رہ گئے اور حکومت میں آ کر بھی اپوزیشن کے مائنڈ سیٹ سے باہر نہ نکل پائے۔ کام کے بجائے تحریک انصاف کی کابینہ اور قیادت کا سارا وقت نواز شریف اور آصف زرداری کو بے ایمان ثابت کرنے اور ٹوئٹر اور ٹیلی وژن چینلوں پر مباحث میں ضائع ہو گیا۔ اس دوران روپے کی قدر میں کمی کر کے برآمدات بڑھانے کا تجربہ ناکام ثابت ہوا اور اس تجربے نے ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے دوران تحریک انصاف کی مکمل تیاری نہ ہونے کے باعث آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ بھی تاخیر کا شکار ہوا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے ملنے والے امدادی پیکج بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور امور حکومت کی نذر ہو گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف اپنی مرضی کی شرائط پر پاکستان کو قرضہ دے رہا ہے اور "ہم قرضہ نہیں لیں گے" کی گردان الاپنے والے چپ چاپ سر تسلیم خم کیے اس کی ہر شرط کو مانے جا رہے ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ابھی مزید اضافے کا امکان ہے جبکہ حکومت کی ساری توجہ اپوزیشن کو اپنے خلاف دھرنے دینے کے چیلنج دینے میں صرف ہو رہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے اب وہی بیانیہ دہرانا شروع کر دیا ہے جو نواز شریف اور مریم نواز نے چند ماہ قبل اپنایا تھا



یہ صورتحال مقتدر قوتوں کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ تیزی سے کم ہوتے ہوئے زر مبادلہ کے ذخائر اور بگڑتی ہوئی معیشت کی وجہ سے وہ اس مصنوعی عمل کو زیادہ عرصہ چلا نہیں پائیں گے۔ دوسری جانب ذوالفقار بھٹو کا نواسہ بلاول اس وقت سندھ میں کامیاب ٹرین مارچ کے ذریعے اپنے ووٹ بنک کو کسی بھی ممکنہ مزاحمتی تحریک کیلئے تیار کر چکا ہے۔ بلاول کی سیاست میں بینظیر کی جھلک دکھائی دے رہی ہے اور بھلے ہی ناقدین اسے آصف زرداری کو بچانے کے حربے قرار دیں، حقیقت یہ ہے کہ کہ پیپلز پارٹی نے اب وہی بیانیہ دہرانا شروع کر دیا ہے جو نواز شریف اور مریم نواز نے چند ماہ قبل اپنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدر قوتوں کو پیچھے ہٹتے ہوئے نواز شریف کو 6 ہفتوں کی ضمانت کی صورت میں وقتی ریلیف فراہم کرنا پڑا ہے۔

مقتدر قوتیں بھی تحریک انصاف کی بلی چڑھانے کو تیار ہیں

یہ ریلیف دلوانے میں شہباز شریف کی کاوشوں کا بھی بہت عمل دخل ہے جو ابھی بھی مقتدر قوتوں کی "گڈ بکس" میں ہیں۔ شہباز شریف کے روایتی  سیاسی طریقہ کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ سیاست کا میدان ہے جہاں کسی کو جارحانہ پوزیشن اختیار کرنی ہوتی ہے تو کسی کو دھیما اور صلح جوئی کا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ چھ ہفتے نواز شریف کو قائل کرنے کیلئے دیے گئے ہیں کہ وہ سیاست ترک کر کے مریم نواز سمیت باہر جانے کو تیار ہیں تو مقتدر قوتیں بھی تحریک انصاف کی بلی چڑھانے کو تیار ہیں۔



نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں

دوسری جانب آصف زرداری کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از وقت گرفتاری ملنا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ وہاں بھی معاملات طے کیے جا رہے ہیں۔ اگر نواز شریف کو وقتی ریلیف نہ ملتا اور آصف زرداری پر ہاتھ ہولا نہ کیا جاتا تو بلاول اور مریم کا متحد ہو کر احتجاجی تحریک چلانا طے تھا۔ اس لئے شہباز شریف کے ذریعے ایک بار پھر نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ نواز شریف نے اگر اس قدر صعوبتیں برداشت کرنے اور تضحیک کا نشانہ بننے کے بعد کوئی بھی ڈیل قبول کی تو ان کی اور ان کی جماعت کی جمہوری جدوجہد کی یہ موت ہو گی اور اس کے ساتھ ہی پنجاب سے اٹھنے والی پہلی بڑی اسٹیبلشمنٹ مخالف تحریک بھی دم توڑ جائے گی۔

پنجاب کی حکومت گرانا چند دنوں کی بات ہے جبکہ سینیٹ میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی مل کر فوری تبدیلی لا سکتی ہیں

اس وقت مضبوط پوزیشن نواز شریف کی ہے کیونکہ پابند سلاسل رہنے کے باوجود سیاست کا محور ان کے گرد گھوم رہا ہے اور پنجاب جیسا روایتی سٹیٹس کو کا حمایتی صوبہ تیزی سے مقتدر قوتوں کی گرفت سے نکلتا جا رہا ہے۔



مسلم لیگ نواز کیلئے پنجاب کی حکومت گرانا چند دنوں کی بات ہے جبکہ سینیٹ میں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی مل کر فوری تبدیلی لا سکتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں چند ووٹوں کی برتری سے قائم تحریک انصاف کی حکومت مقتدر قوتوں کے ہاتھ کھینچتے ہی دھڑام سے نیچے گر سکتی ہے۔ یہ مصنوعی سیاسی عمل جو آزادی صحافت اور عوامی مینڈیٹ کو چرا کر تخلیق کیا گیا تھا اس وقت وینٹیلیٹر پر زندہ ہے اور فیصلہ نواز شریف کو کرنا ہے کہ کیا وہ اس قدر مضبوط پوزیشن میں آنے کے بعد ڈیل کر کے پھر سے سیاسی عمل کو ہائی جیک کرنے والی قوتوں کو دوام بخشیں گے یا پھر مزید کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اس بساط کو سجانے والی قوتوں کو پسپائی پر مجبور کریں گے۔

معاشی محاذ پر تحریک انصاف کی ناکامی نے مقتدر قوتوں کو مجبور کر دیا ہے

ایک بات البتہ طے ہے اور وہ یہ ہے کہ اب مقتدر قوتوں کی اس طرح کے مصنوعی سیاسی عمل کو تخلیق کرنے اور اسے چلانے کی استعداد اور قوت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت پر ان دیکھی قدغنیں عائد ہیں اور اظہار رائے اب جان داؤ پر لگانے والی بات بن چکا ہے۔ جیل میں مقید نواز شریف کا بیانیہ پنجاب میں جڑ پکڑ چکا ہے اور معاشی محاذ پر تحریک انصاف کی ناکامی نے مقتدر قوتوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سے معاملات طے کریں۔ نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ آج بھی جیت رہا ہے اور اسے دیکھ کر پیپلز پارٹی بھی اس کشتی میں سوار ہونے کو تیار ہے۔

ملکی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مقتدر قوتیں کوئی بساط سجائیں اور ایک سال کے اندر ہی اس پر بتدریج پسپائی کی جانب بڑھتی چلی جائیں۔ ہم غالباً رفتہ رفتہ اکہتر برسوں سے سیاسی عمل کو یرغمال بنانے کے اس کھیل کے اختتام کی جانب سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔