بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (23 ستمبر تا 29 ستمبر)

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (23 ستمبر تا 29 ستمبر)

مہاجرین بلوچستان کی معیشت پر بوجھ ہیں، رکن اسمبلی ثناء بلوچ


وزیراعظم کا خطاب پالیسی نہیں، پی ایس ڈی پی ٹھیک کرنی ہوگی


بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سابق سینیٹر ثنا بلوچ نے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پشتون بھائیوں کے خلاف نہیں نہ ہی ان کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا تنازع ہے، لیکن مہاجرین صوبے کی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ وزیراعظم کا خطاب پالیسی نہیں ہو سکتی اس کیلئے قوانین موجود ہیں۔ بلوچستان میں رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام پر نظرثانی کی ضرورت ہے، پی ایس ڈی پی ٹھیک نہ کی گئی تو آج اگر صوبے غربت کی شرح 86 فیصد ہے تو یہ بڑھ کر 100 فیصد ہو جائے گی۔ طویل خشک سالی اور منصوبہ بندی کے فقدان نے ہر شعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے۔ خشک سالی سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر منصوبہ بندی کے ساتھ طویل مدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بی این پی کے مرکزی رہنما ثنا بلوچ کا کہنا تھا کہ صرف پشتون ہی نہیں بلکہ بلوچ، تاجک، ہزارہ اور دیگر قوموں میں بھی مہاجرین موجود ہیں۔ افغانستان میں جب حالات خراب ہوئے تو پاکستان نے افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو پناہ دی، انہیں عزت دی، اب ضروری ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے واپس اپنے ملک بیجھا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ بیان جس میں انہوں نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں افغان باشندوں کے حوالے سے جو نیشنل پالیسی بنائی گئی اس کو دیکھا جائے۔ وزیراعظم کے ادا کیے گئے دو الفاظ پالیسی نہیں ہو سکتی، اس کیلئے باقاعدہ ایک طریقہ کار موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان 3 لاکھ 47 ہزار سکوئر کلومیٹر پر محیط ہے جس میں 43 ہزار سکوئر کلومیٹرز پر پشتون آباد ہیں، اگر پشتون چاہتے ہیں تو بھی قبول ہے اگر وہ الگ صوبہ چاہتے ہیں تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔






بلوچستان کی ساحلی پٹی پر وفاقی تسلط تسلیم نہیں کرینگے، عبدالمالک بلوچ


گوادر اور لسبیلہ کو اکٹھا کرنا سازش کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہے، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان


افغان مہاجرین کو شہریت دینا بلوچ شناخت پر کاری ضرب ہے، جس کے خلاف رکاوٹ بنیں گے، مرکزی رہنما نیشنل پارٹی


سابق وزیراعلیٰ بلوچستان، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ سازش کے تحت بلوچستان کی ساحلی پٹی کو بلوچستان سے نکال کر وفاقی حکومت کے زیر انتظام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ گوادر اور لسبیلہ کو اکٹھا کرنا اس سازش کی تکمیل کی جانب پہلا قدم ہے، جسے نیشنل پارٹی کسی صورت قبول نہیں کرے گی بلکہ اپنے عوام کے ساتھ مل کر منظم سیاسی مزاحمت کی ابتدا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ کل نیشنل پارٹی حکومت میں شراکت دار تھی تو کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کرے مگر آج یہ سازش پایہ تکمیل تک لے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، نیشنل پارٹی اس سازش کو بلوچ شناخت اور ڈیموگرافی پر کاری ضرب تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی حلیف جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اتحادی حکومت کے سامنے اس حوالے سے مزاحمت کریں۔






کچھی بولان میں تیل کے وسیع زخائر دریافت، یومہ 1500بیرل نکلنے لگا


تیل کا ذخیرہ 1500 فٹ کھدائی کے بعد زمین کی اس تہہ میں دریافت ہوا جسے مورو مغل کوٹ اینڈ چلتن فارمیشن کہتے ہیں


زیارت میں بھی کچھ عرصہ قبل تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا تھا، وہاں سے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر تاحال نہیں نکالا جا رہا، اسد ربانی


وفاقی پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ نے بلوچستان کے ضلع کچھی بولان میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت کرنے کا دعویٰ کر دیا، تیل کا یہ ذخیرہ زمین کی اس تہہ میں دریافت ہوا ہے جسے مورومغل کوٹ اینڈ چلتن فارمیشن کہتے ہیں۔ ماڑی پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کے ترجمان اسد ربانی نے بتایا کہ بلوچستان کے ضلع کچھی بولان میں تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جس سے روزانہ کی بنیاد پر خام تیل نکالا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر سائیٹ پر دو ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جن میں سے ایک سے 810 بیرل اور دوسرے سے 690 بیرل تیل نکل رہا ہے۔ اسد ربانی کے بقول 1500 بیرل تیل کی یومیہ پیدوار ایک بڑی کامیابی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں زیر زمین تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ تیل کا یہ ذخیرہ زمین کی اس تہہ میں دریافت ہوا ہے جسے مورو مغل کوٹ اینڈ چلتن فارمیشن کہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں پہلے زمین کی اس تہہ سے کبھی بھی کوئی تیل وغیرہ دریافت نہیں ہوا اور حالیہ دریافت کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ مستقبل میں بھی زمین کی اس تہہ سے کسی دوسری جگہ تیل کے مزید ذخائر بھی مل سکتے ہیں۔






بتایا جائے کس قانون کے تحت شاہراہیں بلاک کی گئیں، بلوچستان ہائیکورٹ


اے جی اور کنٹونمنٹ بورڈ ایسی سڑکوں کی تفصیل دے جو مستقل طور پر بند ہیں، عدالت کے ریمارکس


آئی جی پولیس، کمشنر کوئٹہ، ایس ایس پی ٹریفک اور کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم


بلوچستان ہائیکورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس کامران ملاخیل پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے کوئٹہ شہر اور کنٹونمنٹ ایریا میں بلاکس کے ذریعے سڑکوں کی بندش اور ٹریفک سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت کے دوران میئر کوئٹہ، آئی جی پولیس، کمشنر کوئٹہ، ایس ایس پی ٹریفک اور کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کس قانون کے تحت شاہراہیں بلاک کی گئی ہیں۔ سماعت کے دوران درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ شہر اور کنٹونمنٹ ایریا میں نہ صرف مستقل طور پر سڑکیں بلاک ہیں بلکہ مختلف سڑکوں اور خاص کر ریڈ زون، زرغون روڈ اور ائرپورٹ روڈ پر مختلف وی آئی پی مومنٹ کے باعث ٹریفک جام کا مسئلہ جنم لے رہا ہے، جس کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دورا ن سماعت عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ اہم نوعیت کا مسئلہ ہے، اس لئے میئر میٹروپولیٹن کوئٹہ، آئی جی پولیس، کمشنر کوئٹہ، ایس ایس پی ٹریفک اور کنٹومنٹ ایگزیکٹو آفیسر وضاحت پیش کریں کہ اگر کوئی روڈ کوئٹہ شہر اور کنٹونمنٹ ایریا میں بلاک ہے تو یہ کس قانون اور کس کی ہدایت پر کیا گیا ہے، آئی جی پولیس اور ایس ایس پی پولیس بھی وی آئی پی مومنٹ اور پروٹوکول کی تفصیل دیں، اس کے علاوہ سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی ٹریفک انجینئرنگ بیورو کے قیام اور سڑکوں کی توسیع سے متعلق پروگریس رپورٹ دیں جبکہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کے سی ای او ٹریفک اور پارکنگ سے متعلق تجاویز دیں۔ بعدازاں سماعت کو 9 اکتوبر تک ملتوی کر دیا گیا۔






کوئٹہ: نجی ہسپتال کا آزادی صحافت پر حملہ، 92 نیوز کی ٹیم یرغمال


ناگی چلڈرن ہسپتال میں غفلت سے نومولود جاں بحق، لواحقین کا احتجاج، کوریج کرنے والی ٹیم پر ہسپتال انتظامیہ کا تشدد


کیمرہ چھیننے، سیکورٹی گارڈ سے اسلحہ چھین کر فائرنگ کی کوشش، 3 ملزمان گرفتار، نجی ہسپتال لوٹ مار میں مصروف ہے، لواحقین


صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے پٹیل باغ میں واقع ناگی چلڈرن ہسپتال میں صغیر نامی شہری نے نومولود بچے کو 3 روز قبل ہسپتال کے انکیوبیٹر وارڈ میں داخل کروایا تاہم شہری کے مطابق 3 دن تک وارڈ میں کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر بچے کو دیکھنے نہ آیا جسکے باعث بچہ جاں بحق ہو گیا، جس پر لواحقین نے شدید احتجاج کیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی 92 نیوز کی ٹیم متعلقہ ہسپتال پہنچی جہاں کوریج کے دوران انتظامیہ نے 92 نیوز کو کوریج سے روکا اور اسی دوران کیمرہ مین پر شدید تشدد کیا اور اس سے کیمرہ چھیننے کی کوشش کی۔ ہسپتال انتظامیہ نے 92 نیوز کو یرغمال بنا لیا اور لڑائی جھگڑے کے دوران ہسپتال کے سکیورٹی گارڈ سے انتظامیہ نے اسلحہ لے کر 92 نیوز کی ٹیم پر حملہ اور فائرنگ کرنے کی بھی کوشش کی۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی متعلقہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ موقع پر پہنچ گئی اور میڈیا ٹیم پر حملہ کرنے والے 3 افراد کو گرفتار کر لیا۔ لواحقین نے بتایا کہ کوئٹہ شہر میں ڈاکٹرز اپنے پرائیویٹ ہسپتالوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کو لوٹنے کے مکروہ دھندے میں ملوث ہیں، ایک رات کیلئے نومولود بچے کو انکیوبیٹر میں رکھنے کے 5 ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں، جبکہ ان تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں نہ ہی ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی نومولود بچوں کی دیکھ بھال کا انتظام ہوتا ہے۔