مغرب پلٹ پاکستانیوں کی فکری تبدیلی

(ندیم ایف پراچہ)


2012 میں ایک دوست نے مجھے ایک دلچسپ کہانی سنائی۔ اْس کا ایک کزن، جس کی عمر اْس وقت 26 سال ہوگی اور جو لندن میں ہی پیداہوا اور پروان چڑھا، زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان آ رہا تھا۔ میرا دوست یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کزن، جو اپنے والدین کے ہمراہ تھا، ایک مولوی سا دکھائی دیتا تھا۔ اْس کے والد صاحب 1970کی دہائی کے آخر میں، اپنی شادی کے بعد، پاکستان سے برطانیہ گئے تھے۔ پھر وہ شادی شدہ جوڑا لندن میں آباد ہوگیا جہاں 1985 میں اْن کا بیٹا پیدا ہوا۔ اگرچہ وہ کزن یورپ کے بہت سے ممالک کی سیر کرچکا تھا لیکن اب زندگی میں پہلی مرتبہ پاکستان آرہا تھا۔

میرا دوست کزن کا حلیہ دیکھ کر قدرے محظوظ ہوا، لیکن اْس وقت اْسے سخت حیرانی نے آن لیا جب گفتگو کے دوران اْس کے کزن نے کہا کہ پاکستانی "درست مسلمان" نہیں ، اور یہ کہ آ س کے خیال میں پاکستانیوں نے " اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے"۔

میرا دوست سوچ رہا تھا کہ برطانیہ کے عمدہ ترین سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والا کرن انتہائی معقول اور ذی شعور انسان ہوگا ۔ یہ توقع ہر گز نہیں تھی کہ اْس کا کزن پاکستانیوں کے عقائد کی نشاندہی کرتے ہوئے (برطانوی لہجے میں ) افسوس کرے گا کہ پاکستانیوں نے اسلام کو آلودہ کردیا ہے ۔





Get out of my dr--a painting by Faiza Butt




1980 کے اوئل میں کسی مغربی ملک میں چند سال گزارکر واپس آنے والے پاکستانیوں کو زیادہ سمجھدار اور "مارڈرن" خیال کیا جاتا تھا۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں بننے والی پاکستانی فلموں میں ایسے کرداروں کو دیکھ کر یہ بات بہتر انداز میں سمجھی جاسکتی ہے ۔

ان فلموں میں امریکہ یا برطانیہ سے واپس آنے والوں کو زیادہ باشعور اورلبرل سوچ رکھنے والے افراد کے طور پر پیش کیا جاتا۔ خیال کیا جاتا کہ شہروں کے تعلیم یافتہ افراد فطرتاً زیادہ معقول اور ذہین ( اور قدرے کم مذہبی سوچ کے حامل) ہوتے ہیں۔ عام طور پر (فلموں میں) ایسا پاکستانی شہری اکثر اوقات یورپ یا امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جاتا۔

کردار کی اس جدت طرازی(جو کسی مغربی ملک میں قیام کی وجہ سے راسخ ہوتی) کو فلم میں مثبت سماجی خوبی کے طور پر سراہا جاتا۔ یہ خوبی ایوب خان کے دورِ حکومت(69-1958)کے دوران پروان چڑھائے جانے والے "جدت پسندی کے حامل اسلام" کے تصور کےساتھ مناسبت رکھتی تھی ۔ تاہم ایوب خان کی حکومت 69-1968میں طلبہ اور مزدورں کی ہنگامہ خیز تحریک کی نذر ہوگئی۔

1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بائیں بازو کی مقبولِ عام تحریک ابھری۔ ایواب خان کے جدید اسلام کے تصور کے برعکس نئی حکومت نے سماجی جمہوریت کی ترویج کی۔ یہ تصورعوام کی سماجی، معاشی اور سیاسی سوچ کے قریب ترین تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دور میں پاکستانی فلموں نے نے ان تصورات کو کس طرح پیش کیا۔

1960 کی دہائی میں بننے والی فلموں میں امریکہ اور برطانیہ سے واپس لوٹنے والے افراد کو جدید اور ترقی پسندانہ تصورات کا حامل دکھایا جاتا، لیکن 1970 کی دہائی کی فلموں میں ایسے افراد کوگٹار گلے سے لٹکائے ، منشیات کے عادی ، لمبے بالوں والے ہپی افراد کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔

بھٹو دور میں بننے والی اردو فلموں میں مغرب پلٹ پاکستانیوں کو حقیقت پسندی کی عوامی عینک سے دیکھا جانے لگا۔ درحقیقت یہ ایک گمان تھا۔ معمولی سرمایہ دارانہ پسِ منظر رکھنے والے فلمسازوں کا تخلیق کیا جانے والا قیاس یہی تھا کہ مغرب کی زندگی ایسی ہی رنگینیوں سے عبارت ہوگی۔ چنانچہ اُنھوں نے مغرب سے واپس آنے والے پاکستانیوں کا کرداراپنی سوچ کے اسی زاویے سے تراشا۔





Imran Qureshi, Moderate Enlightenment, 2009. Private Collection, Venice. (via ArtMag by Deutsche Bank)




اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی معاشرے کا جھکائو دائیں بازو کی طرف ہوگیا تھا۔ نہیں، اُس وقت تک ایسا نہیں ہوا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ ایوب خان دور(1960) کی دہائی میں پروان چڑھنے والا شہری لبرل ازم ارتقائی سفر طے کرتا ہو(بھٹودور میں)مقبول عوامی تصور کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ وہ تصور اب "سوشلزم" سے تعلق رکھتاتھا۔ کم درجے کے دولت مند جدیدیت کے ان دونوں تصورات کے درمیان سینڈوچ بن گئے تھے ۔

چنانچہ 1970کی دہائی میں بننے والی فلموں میں یہ بیانیہ تواتر سے ملتا ہے کہ اگر ملک کے روایتی کلچر سے جڑے رہیں تو لبرل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ1970 کی دہائی میں بننے والی زیادہ تر فلموں میں دیارِغیر سے لوٹنے والے پاکستانی ہپی کوکنفیوژن کا شکار، ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا جاتاجو لبرل بھی ہے لیکن گاہے گاہے "مشرقی اقدار" کی طرف بھی پلٹا کھاجاتا ہے ۔ اور اسے ایک قابل ِ تعریف اور ہر دلعزیز خوبی سمجھاجاتا۔

1976کی ایک سپرہٹ فلم" محبت زندگی ہے" کی مثال لے لیں۔ اس میں اداکارہ ممتاز ایک ایسی پاکستانی لڑکی کا کردار ادا کرتی ہے جو "مغربی کلچر" سے اتنی متاثر ہوتی ہے کہ وہ رات گئے تک کراچی کے بارزاور نائٹ کلبوں میں وقت گزارتی ہے ۔ دوسری طرف اْس کا منگیتر( جس کا کردار وحید مراد نے ادا کیا) ایک برطانوی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے آیا ہے ۔ اْسے ایک سنجیدہ اور ذہین شخص کے طور پر دکھایا جاتا ہے کیونکہ وہ "مشرقی کلچر" سے جڑا ہوا ہے ۔ وہ کوئی ہپی بن کر واپس نہیں آتا، اس کی بجائے وہ ایک ایسا شخص ہے جو مغرب میں کئی سال گزارنے کے باوجود"مشرقی" ہے ۔ یہ کرداراْس مغرب پلٹ پاکستانی کی ایک نرم جھلک لیے ہوئے تھا جوایک عشرہ یا کچھ دیر بعد وجود میں آنے والا تھا ۔





Film poster - Mohabbat Zindagi Hai (1976)




1970 کی دہائی وہ وقت تھا جب زیادہ بڑی تعداد دمیں پاکستانیوں نے بیرونی ممالک کا سفر کرنا شروع کردیا ۔ تاہم فرق یہ ہے کہ اب اْن میں سے زیادہ تر کا رخ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کی طرف تھا، جہاں ملازمت کے وسیع مواقع موجود تھے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ 1970 کی دہائی کے آخری حصے کا پاکستان زیادہ تر عرب ممالک سے کہیں زیادہ لبرل اور سماجی اجتماعیت اور رواداری کا حامل تھا۔

اس طرح روزگار کی تلاش میں جانے والے پاکستانیوں کو تیل کی دولت رکھنے والی ایسی ریاستوں میں قیام کرنا پڑا جہاں سخت گیر آ مریت تھی، یا وہ ایسی ریاستیں تھیں جہاں تک ابھی "جدیدیت " کا عمل شروع نہیں ہوا تھا۔ 1980 کی دہائی تک پاکستانی اپنے اہلِ خانہ کو بھاری بھرکم رقوم بھیجنے لگے،جس نے خوشحال پاکستانی درمیانے طبقے کو جنم دیا۔

وہ محنت کش پاکستانی کٹرعقائد رکھنے والی عرب ریاستوں سےمتاثر ہونے لگے۔ آنے والی معاشی خوشحالی کے تناظر میں پاکستان میں لوگوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اْ ن کی سابق معاشی بدحالی کا تعلق اْن کے سابق معتدل مزاج عقائد سے تھا۔

1980 کی دہائی کے بعد سےشہروں کے درمیانی طبقے کے کٹر اسلام کے مختلف نظریات کی طرف جھکائو کی کم از کم ایک وجہ یہی تھی۔اس عقیدے کو اختیار کرنا ایسا ہی تھا جیسے کسی نے اعلیٰ معاشی مقام حاصل کرلیا ہو ۔ اس فکری تبدیلی کو1977میں بھٹوحکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہونے والی فوجی آمریت نے مہمیز دی۔

اب درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک "کامیاب"پاکستانی وہ تھا جو تعلیم یافتہ، تاجر، بزنس مین، یا کسی بڑی کمپنی کا ملازم تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صوم وصلواۃ کا پابند مسلمان بھی تھا اور اس کی وضع قطع بھی "اسلامی" تھی۔





Anwar Jalal Shemza, City Walls 1961 - Tate Gallery, UK.



9/11 کے بعد مغرب میں رہنے والے پاکستانی بھی ایسی ہی تبدیلی سے گزرے۔ اب مغرب سے واپس آ نے والے پاکستانی کسی طور جدیدیت اور لبرل سوچ کی علامت نہ تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ پاکستان میں معاشی طور پر درمیانے اور نچلے طبقے میں یہ تبدیلی بتدریج آ رہی تھی لیکن بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی آبادکار تبدیلی کے اس عمل سے تیزرفتاری سے گزرے تھے ۔ اس عمل کو بیرونی ممالک کا سفر کرنے والے مسلمان مبلغین کی مقبولیت نے بھی تیز کردیا۔

ایسی کہانیاں بھی سنائی دینے لگیں کہ یورپ اور امریکہ میں پاکستانی والدین کی اولاد جو "سچے مسلمانوں کی طرح رہ رہے تھے" کو یہ جان کر سخت صدمہ ہوا کہ پاکستان ایسی جگہ ہرگز نہیں جس کا اْن کے ذہن میں تصور موجود تھا۔ یہ ایک چونکا دینے والی پیش رفت تھی ۔ مغرب پلٹ پاکستانیوں کو اب پاکستان میں رہنے والوں سے "بہتر مسلمان " سمجھا جانے لگا۔ میرے دوست کا کزن اسی بات پر یقین رکھتا تھا۔

اگرآج پاکستانی سینما فعال ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ ہم ایسی فلمیں دیکھتے جن میں ایک مغرب پلٹ پاکستانی لبرل اور جدید سوچ کا حامل ، یا کوئی ہبپی نہ ہوتا، بلکہ وہ شدید صدمے کی کیفیت میں اپنے ہم وطنوں کے عقیدے کی طرف انگشت نمائی کرتے ہوئے اْنہیں (امریکی اور برطانوی لہجے میں) توبہ کرنے اور خود کو سچا مسلمان بنانے کی تلقین کرتا۔