یہ اتحاد کب تک چلے گا؟

یہ اتحاد کب تک چلے گا؟
ٹیلی وژن اور اخبارات کے بعد آج کل سوشل میڈیا کی خبریں زیادہ زیر بحث رہتی ہیں جو اکثر افواہ کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ افواہ محض میڈیا کی محتاج نہیں ہے۔ افواہ سازی میں سینہ گزٹ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حساس اداروں میں کچھ رشتہ دار اور کلاس فیلوز کی ملازمت افواہ کو مصدقہ بنانے کیلئے کافی ہے۔ پہلی افواہ خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کے متعلق ہے۔ جو سینہ گزٹ سے سوشل میڈیا کی زینت بھی بنی ہوئی ہے اور اس پر خوب مغزماری بھی جاری ہے۔ افواہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ افواہ نما خبر کی نوعیت مصدقہ یار غیر مصدقہ دونوں کے امکانات موجود ہیں۔

https://twitter.com/SidrahMemon1/status/1111711561725431808

نیم صحافی کے پاس اندر کی سب خبریں موجود ہیں

راولپنڈی میں سیاسی شخصیت کے دفتر میں چار ماہرین ہرفن مولا بشمول سیاستدان خاتون اول کی واپسی اور جمائما خان کی دوبارہ انٹری کی بابت نتائج اخذ کر رہے تھے۔ جب ایک نیم صحافی نے مہر ثبت کرتے ہوئے بات کی تہہ وا کی کہ خاتون اول بشریٰ بی بی کے تمام پچھلے بنی گالہ میں برجمان ہو چکے تھے۔ جس پر وزیر اعظم سیخ پا ہوئے اور معاملہ نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ میاں بیوی میں کھٹ پٹ ہے۔ صلح کے امکان نہیں ہیں۔ جمائماخان واپس آ رہی ہے۔ ارے بھائی تمہیں کیسے پتہ چل گیا سب؟

ہرفن مولاؤں کے مطابق عمران خان جو چاہتے ہیں انہیں وہ کرنے نہیں دیا جا رہا ہے

دوسری افواہ میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بیان منسوب کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ اگر ایسے ہی چلے گا تو وہ وزارت عظمیٰ چھوڑ دیں گے۔ اس بیان کے موقع و محل پر ابہام ہے کہ عمران خان نے غم و غصے کا اظہار کس بات پر اور کس موقع پر کیا اور کیونکر کیا ہے۔ ہرفن مولاؤں کے مطابق عمران خان جو چاہتے ہیں انہیں وہ کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ عمران خان سمجھتے تھے کہ وزیراعظم بن کر وہ سب کچھ سنبھال لیں گے لیکن کرسی اقتدار پر بیٹھ کر انہیں اندازہ ہوا ہے کہ اختیارات کا منبع تو کہیں اور ہے۔

https://twitter.com/AzazSyed/status/1112091089295560704

شادیانے بجانے کی تو نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ ہنی مون میں ہی سیاپا شروع تھا۔ جشن کا مہورت ہی نہیں بنا

یہ بات تحریک انصاف میں بھی سرایت کر چکی ہے کہ ہمارے ساتھ گیم ہوئی ہے۔ اقتدار کے نام پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ صرف وزیراعظم بے اختیار نہیں ہے بلکہ وزیر، مشیر، ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی نام کی حد تک ہیں۔ تھانے کا ایس ایچ او بھی ان کی نہیں سن رہا ہے۔ وزیر اعظم صرف فائلوں پر دستخط کرنے تک محدود ہیں۔ یوتھ تو شدید پریشانی کا شکار ہے۔ شادیانے بجانے کی تو نوبت ہی نہیں آنے دی گئی۔ ہنی مون میں ہی سیاپا شروع تھا۔ جشن کا مہورت ہی نہیں بنا۔

اب دیکھیں پی ٹی آئی سر جھکا کر گھر بسانے کو ترجیح دیتی ہے، خلع لیتی ہے کہ طلاق پر بات ختم ہوگی

اب اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر بنا کرمزید کیا پیغام دینا مقصود ہے کہ اصل حکمران پی ٹی آئی نہیں ہے؟ اگر یہی پیغام ہے تو پھر عمران خان کا غم و غصہ ٹھیک ہے۔ بے شک زیادہ پہلے ہی اکثریت ان کی ہے مگر پھر بھی اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آخر منتخب حکومت ہے۔ ووٹ بھی لیے ہیں۔ عوام کو بھی منہ دکھانا ہے۔ اور پھر چپ رہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کا مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر اپنی ہی حکومت کے خلاف مظاہرہ بھی اس امر کی بین گواہی ہے کہ ساک مندے نیں۔ یہ شادی نہیں چل سکتی۔ اب دیکھیں پی ٹی آئی سر جھکا کر گھر بسانے کو ترجیح دیتی ہے، خلع لیتی ہے کہ طلاق پر بات ختم ہوگی۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔