Get Alerts

عدم اعتماد کا جال عمران خان کے لئے تھا یا نواز شریف کے لئے؟

عدم اعتماد کا جال عمران خان کے لئے تھا یا نواز شریف کے لئے؟
عدالتی محاذ پر دادرسی کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی کال اور دھرنے نے جو صورتحال اسلام آباد میں اختیار کر لی ہے اس کے مضمرات پر تو بات ہوتی رہے گی مگر اس سارے معاملے کے دوران حکومتی اداروں کی جو بے بسی دیکھنے کو ملی ہے اس کے بعد یہ سوال ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ نون لیگ نے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد پیش کرنے کی سیاسی غلطی ایسے وقت پر کیوں کی جب عمران حکومت غیر مقبولیت کی  انتہائی حدود کو چھو رہی تھی؟ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ عمران خان نے امریکی سازش کی آڑ میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی چار سالہ کارکردگی کا سوال بے معنی ہو گیا ہے اور عمران خان ہر قوت اور ادارے کو للکار رہا ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے وقت جو جواز پی ڈی ایم کی طرف سے سامنے آیا تھا وہ یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت کو دس سالوں تک ملک پر مسلط کرنے کا منصوبہ جنرل فیض اور عمران خان کی ملی بھگت سے پروان چڑھ رہا ہے اور اگر اس الائنس کو نہ توڑا گیا تو اپوزیشن جماعتیں نومبر کے بعد مکمل طور پر تختہ مشق بن جائیں گی۔ اس لئے عدم اعتماد کی تحریک ضروری تھی تاکہ اگلے الیکشن سے قبل آرمی چیف کی تعیناتی اور بعض دوسرے اہم ریفارمز کر کے حالات کو کنٹرول کیا جائے۔ آج ملک میں جو حالات پیدا ہو گئے ہیں ان کی روشنی میں از سر نو اس جواز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی عدم اعتماد ہی عمران خان کے دس سالہ اقتدار کو روکنے کا موثر ترین طریقہ کار تھا؟

بادی النظر میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ کی قیادت عمران - فیض فوبیا کے زیر اثر ایک ایسے ٹریپ میں آ گئی جس سے اس کی سیاسی حرکیات کی فہم و فراست اور بصیرت کے بارے میں سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں۔ عمران خان کے ردعمل کو پوری طرح نہ بھانپ پانا اور عدم اعتماد کی تحریک کے پس منظر میں طاقت کے مراکز سے جڑے جن سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی تھی ان سے واضح کمٹمنٹ نہ لینے کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔ ملکی معیشت کی خرابی کا اگر صحیح ادراک ن لیگ کی قیادت کو اقتدار میں آنے کے بعد ہوا تو اس سے بھی ان کی معاشی ٹیم کی استعداد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ خطے کی اہم قوتوں اور امریکی حکومت کے ساتھ ن لیگ کے روابط کی داستانیں تو بہت سنائی گئیں مگر نو زائیدہ حکومت کو بیل آؤٹ کرنے کے لئے کسی نے بھی خاطرخواہ مدد فراہم نہیں کی۔ یہ درست ہے کہ ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں پیدا ہوتا اس وقت تک بیرونی امداد مشکل سے ہی ملتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیو پولیٹیکل عوامل سے جڑے حکومتی تبدیلی کے فیصلوں میں نئی حکومت کو استقرار پکڑنے کے لئے روز اول ہی سے اندرونی اور بیرونی دوستوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخر اس سارے بندوبست کی تفصیلات طے کیے بغیر کس برتے پر نواز لیگ نے اس سارے کھیل میں خود کو اتارا تھا؟

یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کے مفروضے کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں کی گارنٹی کس نے دی تھی اور اس وقت وہ قوتیں کہاں کھڑی ہیں جب عدالتوں سے لے کر ففتھ جنریشن وارفیئر کے جنگجوؤں کی توپوں کا رخ تاحال نون لیگ کی طرف ہی ہے؟ ایک چھوٹے سے پراجیکٹ میں بھی ہر قدم پر پرفارمنس انڈیکیٹرز کو طے کیا جاتا ہے تاکہ فریقین ایک دوسرے کی ساکھ، مالیاتی استحکام اور سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی قوت ارادی کو جانچ سکیں۔ آخر اتنی بڑی سیاسی اتھل پتھل کی ڈیل میں پرفارمنس انڈیکیٹرز کیا تھے اور ان کی نگرانی کا کیا میکانزم طے ہوا تھا؟ حکومت بننے کے چند ہفتوں کے دوران ہی اگر آرمی کی قیادت نے سخت معاشی فیصلوں اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا تھا تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش کرتے وقت پی ڈی ایم کی قیادت نے آخر ان قوتوں کے ساتھ کچھ طے بھی کیا تھا یا بس نیوٹرل ہونے کے اشارے کو کافی جانتے ہوئے چھلانگ لگا دی تھی؟

آخری مگر اہم ترین سوال یہ بھی ہے کہ جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کے خوف کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو جب عدم اعتماد پیش کرنے پر آمادہ کیا گیا تو اس وقت جوابی طور پر ادارے کو اس کے اندرونی معاملات انتظامی طور پر حل کرنے کے بجائے سیاسی طور پر حل کرنے سے روکنے پر مزاحمت کیوں نہیں کی گئی؟ کیا میاں نواز شریف جیسے جہاندیدہ سیاستدان کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ فوجی قیادت کو یہ پیغام بھجواتے کہ جس شخص کے مستقبل کے عزائم کے بارے میں ہم سب مشترکہ طور پر فکرمند ہیں وہ کوئی سیاستدان نہیں بلکہ ایک یونیفارم آفیسر ہے۔ ادارے سے پہلے یہ مطالبہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی صفوں میں ڈسپلن اور تطہیر کا عمل شروع کریں اور جب یہ عمل اندرونی طور پر مکمل ہو جاتا تو سیاسی قوتیں اس کھیل کے سیاسی فریق یعنی عمران خان سے بھی معاملہ برابر کر سکتی تھیں۔ اس کے برعکس ہوا یہ کہ پی ڈی ایم اور ن لیگ کو سیاسی محاذ پر ایک ایسے کھیل میں دھکیل دیا گیا جو دلدل کی صورت میں مصیبت بن کر رہ گیا ہے۔ ن لیگ کے لئے تو یہ لانگ ٹرم نقصان اس لئے بھی ہے کہ اس سے نواز شریف کے سولین بالادستی کے بیانیے کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔ اب اس بیانیے کا ایک حصہ پی ٹی آئی کی قیادت لے کر چلے گی اور ن لیگ کے پاس سیاسی کیپیٹل کے طور پر کوئی ایسا برتر بیانیہ باقی نہیں رہ گیا جو اسے سیاسی معاصرین سے ممتاز کرتا ہو۔