ضروری نہیں ہماری سوچ سے مختلف رائے ہمیشہ غلط ہی ہو

ضروری نہیں ہماری سوچ سے مختلف رائے ہمیشہ غلط ہی ہو
کہیں مذہب و مسلک کے نام پر تو کہیں صوبائی عصبیت کے نام پر، کہیں ذات برادری کے پردے میں تو کہیں لبرل سوچ اور قدامت پسندی کے چکر میں، عدم برداشت کا رویہ ہمارے ہاں ایسا رچ بس چکا ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے خالی نہیں۔ مخالف کی مضبوط دلیل بھی جوتے کی نوک پر رکھنے والے اپنی بے ڈھنگی اور بے سروپا دلیل کو آہنی خود پہنا کر مباحثے کے میدان میں اتارنا چاہتے ہیں۔ خود چاہے کسی کے مقدسات کی جی بھر کر توہین کریں لیکن بات جب اپنے مقدسات تک پہنچے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔

اپنے خیالات سے مختلف رائے کے لیے دل ودماغ کے بند کواڑ نہ کھولنا اور اسے سماعتوں کے دروازے پر ہی روک بلکہ ٹوک دینا عدم برداشت کہلاتا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہر دوسرا شخص عدم برداشت کا شکار نظر آتا ہے۔ سماج میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا ہماری زندگیوں پر بہت گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ ہر فرد دوسرے کے خیالات پر تنقید کرتا نظر آتا ہے جس سے معاشرے کا امن اور سکون برباد ہو رہا ہے۔ بعض اوقات غصے میں انسان ایسے ایسے جملے کہہ جاتا ہے جو سامنے والے کے لیے انتہائی ناگوار ہوتے ہیں اور اس کی شخصیت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

ہم اپنی ہر بات کو ٹھیک جبکہ دوسرے کی بات کو ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ ہر طرف برداشت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ٹیلی ویژن سکرین سے لے کر عام زندگی میں ہر جگہ عدم برداشت کا رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔ روڈ پر سفر کرتے ہوئے آپ کو بہت سے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ معمولی سے نقصان اور غلطیوں پر لوگ ایک دوسرے کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں، یا اگر کوئی دوسرا آپ کی گاڑی کو کراس کر لے تو بس پھر کیا ہے، روڈ کے درمیان گاڑی روک کر جب تک اس بندے کو کھری کھری باتیں نہ سنا دیں، سکون نہیں آتا۔ ہوٹل میں کھانا دیر سے آنے پر ویٹر پر برس پڑتے ہیں۔ اور تو اور اب تو ہلکی پھلکی تلخی پر کچھ جنگجو ذہنیت کے لوگ گولیاں مار کر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا ذمہ دار کون ہے اور لوگوں کے رویوں میں برداشت کیسے پیدا کی جائے؟ اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اچھی تعلیم اور تربیت ہی ایسا ہتھیار ہے جس سے فرد اور معاشرے کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے جس کے معنی ہیں سکھانا یا رہنمائی کرنا۔ گویا تعلیم میں بچے کی تربیت کا پہلو بھی شامل ہے۔

عدم برداشت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیاں بالکل ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، والی بال، بیڈ منٹن اور اسی طرح کے دوسرے کھیل ہمیں جیتنے کے علاوہ ہارنا بھی سکھاتے ہیں اور ہمارے اندر برداشت کا رویہ پروان چڑھاتے ہیں لیکن افسوس ہمیں ہارنا سکھایا ہی نہیں جاتا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ہار کو تسلیم کرنا سیکھنے کا عمل ہے اور یہ سیکھنا ضروری ہے۔ جو اپنی شکست تسلیم کرنا سیکھ لیتا ہے، اس میں برداشت پیدا ہو جاتی ہے لیکن جسے اپنی شکست تسلیم کرنا نہیں آتا یا اپنی انا کے اوپر وار تسلیم کرنا نہیں آتا تو ایسا شخص اپنے اندر کبھی بھی برداشت پیدا نہیں کر سکتا۔

اگر ہم مہذب قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم عدم برداشت کو مزید برداشت نہ کریں۔ ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیئے اور کوشش کرنی چاہیئے کہ کسی کی بھی دل آزاری نہ کریں۔

انعم حمید براڈکاسٹر ہیں اور مختلف سماجی موضوعات پر بلاگ لکھتی ہیں۔