عمران خان کی معاشی پالیسی غلط نہیں۔ آپ کم عقل ہیں

عمران خان کی معاشی پالیسی غلط نہیں۔ آپ کم عقل ہیں
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جب سے وطن عزیز میں تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے عوام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بیڈ گورننس کے سبب کسی بھی چیز، محکمے اور ادارے پر حکومت کا رتی برابر اختیار نظر نہیں آتا اور نہ ہی ایسی کوئی قانون سازی ہوئی ہے جس کو دیکھ کر حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہو سکے۔

اس کے علاوہ اشیائے ضروریہ، ادویات کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اس کے علاوہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور اس کی وجہ سے بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی عوام کے لئے قیامت بن کر رہ گئی ہیں۔ بادی النظر میں حکومت کی معاشی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ راقم الحروف کی رائے میں اس سب کا الزام تحریک انصاف کی حکومت کو دینا بالکل غلط ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ چیز ثابت ہو چکی ہے کہ یہ سب حرکتیں ایک کرپٹ مافیا کر رہا ہے، جس کا مفاد اور بقا صرف اس چیز میں ہے کہ عمران خان کی حکومت کو نکمی اور نااہل ثابت کیا جائے اور اس ضمن میں لفافہ صحافی اور بکاؤ میڈیا اپنا روایتی منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت پر بہت سی باتوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، جس میں بیڈ گورننس سرفہرست ہے مگر معاشی پالیسی پر تنقید کرنا حقائق کے بالکل منافی اور منافقت ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود حقائق کے مطابق حکومت اس وقت سٹرکچرل ریفارمز کر رہی ہے جس کی وجہ سے ابتدا میں بہت سی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ پچھلی حکومتوں، بالخصوص نواز حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معشیت ابتر ہے اور خاکم بدہن ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس لئے زیادہ ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ایک تو ان کے دور میں پوری دنیا کساد بازاری کی زد میں تھی اور تیل کی قیمتیں بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں اور دوسرا یہ کہ ان کی حکومت کے زیادہ تر وزرا اور عہدیدار موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔



ماہرین کے مطابق معشیت کی بہتری کے لئے سب سے اہم چیز جو چاہیے وہ کاروبار میں اضافہ اور آبادی میں کمی ہے۔ سٹرکچرل ریفارمز کی بدولت بہت جلد کاروبار میں بڑھوتری دیکھنے کو ملے گی۔ حکومت نے اشیائے ضروریہ کی بنیادی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے، جس کی وجہ سے کاروباری حضرات کا منافع اور حکومتی ٹیکس جو کہ بنیادی قیمت کے فیصد کے حساب سے ہوتے ہیں، ان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یعنی حکومتی آمدن میں بھی اضافہ اور کاروباری حضرات کے منافع میں بھی اضافہ۔ اس کی مثال یوں فرض کریں کہ اگر پہلے ایک چیز کی لاگت سو روپے تھی اور اس کے اوپر دس فیصدی منافع اور دوسرے اخراجات (اوور ہیڈز- جس میں بینک کے قرض وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں) وغیرہ ملا کر کے کل قیمت 120 روپے بنتی تھی (دس روپے منافع اور دس روپے اوور ہیڈ) تو پھر اس کے اوپر 7.5 فیصد انکم ٹیکس اور 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے سے قیمت 149 روپے کے لگ بھگ بنتی تھی۔ اس میں سے بزنس مین کو صرف دس روپے بچتے تھے جبکہ حکومت کے حصے میں محض 29 روپے آتے تھے۔

اب حکومت کے انقلابی اقدامات کی بدولت بنیادی لاگت چونکہ بڑھ چکی ہے تو حساب کچھ یوں ہو گا کہ فرض کیجیے اب لاگت 100 کی بجائے 130 ہو گئی ہے تو اوپر بیان کی گئی شرحوں کے مطابق دس فیصد منافع تیرہ روپے، اوور ہیڈ تیرہ روپے (اس میں بینک کی شرح سود میں اضافہ شامل نہیں) جبکہ حکومت کے حصے میں 38 روپے آئیں گے۔

آپ دیکھیے کہ کس خوبصورتی اور سادہ طریقے سے کپتان نے نہ صرف بزنس مین کی آمدن میں اضافہ کیا بلکہ حکومتی آمدن میں بھی اضافہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے قومی خزانے کی آمدن بڑھے گی اور ملک پر سے قرضوں کا بوجھ قوم ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایک اور انقلابی قدم جو کپتان نے اٹھایا ہے وہ درآمدات پر ڈیوٹیز بڑھا کر درآمدات میں کمی کر دی ہے، اب اس کے نتیجے میں دوسرے ممالک ہماری مصنوعات پر ڈیوٹیز لگا دیں گے، جس کی وجہ سے ہماری برآمدات کم ہوں گی تو ہمیں میڈ ان پاکستان مال استعمال کرنے کی عادت پڑے گی اور اس کی وجہ سے بھی ملکی معیشت ویسے ہی ترقی کرے گی جیسے چین نے ترقی کی۔

ان انقلابی اور بےمثل اقدامات کی بدولت قوم کو شاید وقتی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے جس میں بھوک، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل شامل ہیں مگر بکاؤ میڈیا اور لفافہ صحافی عوام کو کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ کپتان دراصل اکنامکس کی شہرۂ آفاق Malthusian Theory پر عملدرآمد کر رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت جلد آبادی میں کمی واقع ہو گی اور دستیاب وسائل اور آبادی میں ایک خوبصورت تناسب قائم ہو جائے گا اور یوں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔

جب آبادی میں کمی ہو گی تو روزگار کے زیادہ مواقع کے مقابلے میں کم افراد ہوں گے، جس سے ملک میں روزگار کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہو گا، اور ملکی کرنسی جو کہ کریڈٹ کرنسی ہے، اس کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ آبادی میں کمی کے سبب اضافی کرنسی ملکی خزانے میں واپس آئے گی اور جو کام بھارت جیسی مضبوط معشیت کرنسی کے تبادلے جیسا منصوبہ شروع کر کے نہ کر سکی، وہ کام عمران خان کے بےمثل وژن اور قیادت کے بدلے اتنی آسانی سے ہو جائے گا کہ بہت جلد ہماری کرنسی دنیا کی مضبوط ترین کرنسیوں میں شمار ہو گی۔

آبادی میں کمی، کاروبار میں اضافے اور روزگار کے وسیع مواقع کی بدولت باہر کے ملکوں سے لوگ نوکری ڈھونڈنے پاکستان آئیں گے۔ اور اس طرح کپتان کا ایک اور وعدہ پورا ہو جائے گا جو کپتان نے اپنی قوم سے کیا تھا۔