جہانگیر ترین کے مشکل میں پھنسنے پر کون خوش ہے؟

جہانگیر ترین کے مشکل میں پھنسنے پر کون خوش ہے؟
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ سے تھے مہربان

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنانہ تھے


 پاکستان کی وفاقی کابینہ میں پیر کے روز بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کئی وفاقی وزرا بشمول مخدوم خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل کر دیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار سے ان کا قلمدان واپس لے کر سید فخر امام کو دے دیا گیا ہے۔حماد اظہر جو اب تک وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور تھے، انھیں وزارتِ صنعت و پیداوار دے دی گئی ہے جبکہ حماد اظہر کا اقتصادی امور کا قلمدان اب خسرو بختیار کو دے دیا گیا ہے۔ سیکریٹری وزارتِ نیشنل فوڈ سیکیورٹی ہاشم پوپلزئی کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ عمر حمید کو سیکریٹری تعینات کر دیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی اپنی وزارت سے ناخوش تھے کیوں کہ وہ کئی بار شکایات کر چکے تھے کہ ہمیں وزرات چلانے کا اختیار نہیں دیا جا رہا۔ حکومت بننے سے قبل عمران خان ایم کیو ایم کو را کا ایجنٹ قرار دیتے تھے تو پھر ایسی کون سے مجبوریاں ہوئیں کہ عمران خان نے ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کر کے وفاق میں حکومت بنائی۔ ایم کیو ایم پہلے دن سے ہی امین الحق کا نام وزارت کے لیے دے چکی تھی مگر خالد مقبول صدیقی کے استعفی کے بعد معاملات طے ہوگئے۔ دوسری جانب یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پوری دنیا بشمول پاکستان کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی پیش رفت ہوگی ۔ چند روز قبل ایف آئی اے کی رپورٹ منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق انکشافات کیئے گئے تھے۔ جہانگیر ترین عمران خان کے بہت قریب مانے جاتے ہیں ۔

تمام تر صورتحال سے شاہ محمود قریشی بہت خوش نظر آ رہے ہیں پنجاب کے وزیر اعلی کی نشست کے اوپر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی نظر تھی مگر عمران خان نے کسی کے کہنے پر دونوں کو پنجاب سے آؤٹ کر دیا۔ یاد رہے کہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں چھ رکنی انکوائری کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ حکومتی شخصیات نے سرکاری سبسڈی حاصل کرنے کے باوجود زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔اس کمیشن میں انٹیلیجنس بیورو، ایس ای سی پی، سٹیٹ بینک، ڈائریکٹوریٹ جنرل اور ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل تھے۔رپورٹ میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے بارے میں کہا گیا کہ انھوں نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے اس بحران سے فائدہ اٹھایا۔

حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی کو بھی چینی بحران سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ اور فیصلہ سازی میں اہم کردار ہونے کی وجہ سے انھوں نے کم وقت میں زیادہ سبسڈی حاصل کی اور بہت ہی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع بھی یقینی بنایا۔ دوسری جانب خسرو بختیار نے الیکشن سے پہلے کیے ہوئے وعدے ہوا میں اڑا دئیے۔  2018  کے انتخابات میں جنوبی پنجاب کے رہنماؤں نے عمران خان سےمعاہدے کے تحت اتحاد کیا اس وقت خسرو بختیار گروپ نے بڑے بڑے دعوے کیے مگر الیکشن کے بعد اپنے مفادات کو عزیز رکھ کر عوام کو دکھائے گئے خواب چکنا چور کر دئیے ۔ جس مافیا کہ ذکر عمران خان بار بار ذکر کرتے ہیں کہ تیس سال مافیا کہ خلاف جدوجہد کی ہے مگر جس مافیا کہ خلاف جدوجہد کی اس وقت وہی مافیا عمران خان کے دائیں اور بائیں بیٹھی ہے۔ جبکہ مفادات کا کھیل  جاری ہے عوام سے کیے گئے وعدے منتخب ہونے کے بعد یاد نہیں رہتے۔