موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما کراچی کی کچی آبادیوں کے مکین

موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما کراچی کی کچی آبادیوں کے مکین
موسمیاتی تبدیلی انتہائی پسماندہ طبقات کے لئے انسانی حقوق کی پامالیوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بات کی جاتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ اس کے بدترین اثرات مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ اب موسمیاتی تبدیلی دور مستقبل میں نہیں بلکہ بدلتے موسم کے ساتھ ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ آب و ہوا میں تبدیلی تیز ہوگئی ہے اور لوگوں کو متاثر کررہی ہے، جس کے سبب  دنیا میں بے گھر لوگوں کے ساتھ ساتھ کچی آبادیوں کے مکینوں کو سخت زندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موسم گرما میں اب آرام دہ اور پرسکون گرمی نہیں رہی ہے۔ اسی طرح سردیوں میں جسمانی دَرجہ حَرارَت کا نارمَل سے کَم ہونا  اور  یخ موسم کی بدولت جسم میں درد وغیرہ عام ہوگئے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ  آب و ہوا میں براہ راست تبدیلیوں کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو کچی آبادیوں میں رہتے ہیں یا بے گھر ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ شہر کراچی میں بے گھر افراد کی آبادی کتنی ہے اور کتنی رفتار سے  بڑھ رہی ہے؟  ایک جانب رہائش کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف رسد میں کمی کی بدولت کچی آبادیاں، کرائے پر رہائش اور بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔  شدید سردی اور گرمی کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور  ساتھ ہی موسم کی انتہا کی لمبی عمر خطرناک ہوتی جارہی ہے جبکہ لوگوں کی قوت  برداشت  تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ انتہائی سردی کا درجہ حرارت فلو اور ٹھنڈ  کا سبب بن رہا ہے جبکہ شدید گرمی کا درجہ حرارت لو لگنے کا سبب بن رہا ہے۔

بے گھر آبادی کے علاوہ وہ آبادی جو شہر کراچی کی غیر رسمی بستیوں، گوٹھوں اور جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہے، ان کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ شہر کراچی کا کوئی ایسا نقشہ موجود نہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ بے گھر افراد کی پناہ گاہیں کہاں واقع ہیں اور کس علاقے میں کتنے بے گھر افراد ہیں؟ غیر رسمی بستیاں، گوٹھ  اور جھگی جھونپڑیاں کہاں واقع ہیں، ان کی آبادی کتنی ہے؟ بے گھر آبادی کے ساتھ ساتھ غیر رسمی بستیوں، گوٹھوں، جھگیوں اور جھونپڑیوں کی تعداد مستقل طور پر بڑھ رہی ہے کیونکہ حکومتی ادارے سستی رہائش کی فراہمی میں ناکام نظر آنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود آبادیوں کو غیر قانونی گردانتے ہوئے مسمار کر کے ان کے مکینوں کو بے دخل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔

قائد اعظم کالونی کراچی کی ایک آبادی ہوا کرتی تھی، جسے ایک سال قبل مئی 2019 میں مسمار کر کے یہاں کے 100 سے زائد خاندانوں کو بے گھر کردیا گیا تھا جبکہ اعلی عدلیہ کے حکم کے مطابق اس آبادی کے مکینوں کو ایک سال میں معیاری متبادل رہائش فراہم کی جانی تھی مگر ایسا نہ ہوسکا، ساتھ ہی وہ کراچی سرکلر ریلوے بھی بحال نہ ہو سکی جس کے نام پر اس آبادی کو مسمار کر کے یہاں کے مکینوں کو  قدرتی آفات، موسمیاتی تغیر کی سختیاں جھیلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے واضح احکامات کے باوجود حکومت ایک سال قبل مسمار کی گئی آبادی قائد اعظم کالونی کے مکینوں کی آبادکاری میں سنجیدہ نہیں جبکہ یہ  بے گھر خاندان شدید سخت موسم کے خطرات سے دوچار ہیں۔

آب و ہوا میں بدلاؤ کے سبب دنیا کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے مکین بھی ماضی کے مقابلے میں انتہائی سخت موسمی حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ موسم کی یہ سختیاں  سب سے زیادہ بے گھر افراد اور کچی آبادیوں ( جھگی و جھونپڑیوں کے مکینوں)  کے لئے تباہ کن ہیں۔ مناسب چھت نہ ہونے کے سبب، کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور خاندان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ محفوظ پناہ گاہیں نہ ہونے کی وجہ سے جھگیوں اور جھونپڑیوں  کے رہائشی اور بے گھر افراد بیماریوں کا آسان شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس موسمی تبدیلیوں سے لڑنے اور اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کا  کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

درجہ حرارت میں کمی واقع ہو یا درجہ حرارت بڑھ جائے دونوں صورتوں میں یہی کمزور طبقہ  سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ قائد اعظم کالونی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ یہاں کے غریب مکین کس کس کے پاس نہ گئے مگر ان کی  داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ حتیٰ کہ خواتین اور بچوں تک کو پناہ گاہیں فراہم نہ کی گئیں اور شہر کے کمزور طبقے کو ناقابل تسخیر حالات کا سامنا کرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ کچی آبادیوں کے مکین ہوں یا بے گھر افراد انہیں  بنیادی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

جب آب و ہوا کی تبدیلی کی بات ہو تو ہر ایک کی ضروریات کو مدنظر رکھنا چاہئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی پہلے ہی سے غیر رسمی بستیوں میں رہنے والے مکینوں کے لئے خطرات کو بڑھاتی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث دوسروں کے مقابلے میں زیادہ نقصان اٹھا رہا ہے اور ان کی زندگی کے حالات موسم کے شدید واقعات کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب بارشیں شدید اور کثرت سے ہوجاتی ہیں تو اس سے ان کے مکانات کو نقصان پہنچتا ہے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ ضروری امر یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں میں انسانی بستیوں میں رہنے والے ان  لوگوں کی ضروریات پر غور کیا جائے اور یہ خیال رکھا جائے کہ یہ وہی گروہ ہیں جن کو بنیادی طور پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کی ضرورت ہے لہٰذا آب و ہوا کے اقدامات کو لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہونا چاہیے۔

یہ بات واضح ہے کہ شہر کی کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے بھی 'تحفظ'  اتنا ہی ضروری ہے جتنا دیگر شہریوں کے لئے اور ساتھ ساتھ لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے اور ان سے نمٹنے کے طریقوں پر بھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام باہمی طور پر اور متاثرہ تمام لوگوں  کو ساتھ میں شامل کرکے کیا جانا چا ہیے۔ حکومتی اداروں کو کمیونٹیز کے ساتھ مل کر ایسے متبادل حل تلاش کرنے کے لئے کام کر نے کی ضرورت ہے جس میں لوگوں کا تحفظ بنیادی اور اولین تر جیح ہو۔ لوگوں کے رہائشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے مکانات اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی حمایت ضروری ہے مگر اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ  یہ تعمیراتی طریقے آب و ہوا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے موافق ہوں۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے