ڈیجیٹل ٹرک کی بتی

ڈیجیٹل ٹرک کی بتی
ٹرک کی بتی ہر دور میں ہر حکمران نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کی لیکن ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں فرق یہ ہے کہ ماضی کے حکمران جہاں روائتی ٹرک کی بتی کا استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بنایا کرتے تھے وہاں موجودہ حکومت کا ٹرک بھی ڈیجٹل ہے اور اس کی بتی بھی ڈیجٹل بتی ہے۔

 

پی ٹی آئی نے پاکستانی سیاست میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال متعارف کروایا۔  جب باقی سیاسی جماعتیں روایتی طریقوں پر عمل پیرا تھی اس وقت پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ بھرپور پروپیگنڈا کے لیے سماجی رابطوں کی سائٹس کا استعمال کر کے اپنی جماعت کے لیے عوام کی حمایت حاصل کر رہا تھا، یہی وجہ تھی کہ عمران خان کو فیس بُک کا وزیر اعظم بھی کہا جاتا تھا۔

 

حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے پاکستان کو ڈیجٹل پاکستان بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔ جس کے لیے مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے۔ جن میں وفاقی سطح پر سیٹیزن پورٹل نامی ایپلیکیشن قابلِ ذکر ہے۔ اس اپلیکیشن کو ذاتی طور پر استعمال کرنے کا تجربہ ہوا اور معلوم یہ ہوا کہ آپ جس افسر کے خلاف شکایت درج کروائیں اکثر اوقات شکایت محکمہ کے سیکرٹری سے ہوتی ہوئی اسی افسر کے پاس پہنچ جاتی ہے جس کے خلاف آپ کو محکمہ کی مدد درکار ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اس اپلیکشن کی مدد سے کافی حد تک عوام کی آواز انتظامیہ تک پہنچانے میں آسانی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل گھر بیٹھے ہی حل ہو جاتے ہیں۔

دوسری طرف پنجاب میں محکمہ تعلیم کو ڈیجیٹل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس میں سب سے پہلے SIS نامی ایپلیکیشن متعارف کروائی گئی جس کے ذریعے ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا کام بھی لیا جاتا ہے۔

 

 حکومت میں آنے کے بعد پنجاب میں تعلیم کے وزیر نے اکثر اپنے بیانات میں کہا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ تعلیم کی بجائے ٹرانسفر کے وزیر مقرر ہوئے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ سالہاسال سے محکمہ تعلیم میں ٹرانسفر پر پابندی عائد رہی اور اساتذہ ایک جگہ سے دوسرے سکول منتقل ہونے کے لیے ایم پی اے یا ایم این اے کی سفارش کا سہارا لیتے رہے۔

وزیر موصوف نے آن لائن ٹرانسفر کا اعلان کیا اور ساتھ ہی تمام سکولوں میں ریشنلائزیشن کا بھی اعلان کیا کہ جن سکولوں میں اساتذہ کی تعداد مطلوبہ تعداد سے زیادہ ہو گی وہاں سے اساتذہ کو دوسرے سکول منتقل کر دیا جائے گا۔ دو سال گزرنے کے بعد بھی ریشنلائزیشن محتلف وجوہات کی بنا پر نہ ہو سکی۔

2019 میں ہونے والی ٹرانسفر انتہائی شفاف طریقہ سے کی گئی پہلی بار اتنے سہل طریقہ کار سے ٹرانسفر ہونے پر اساتذہ بھی بہت خوش تھے۔ اس میں اساتذہ کو تمام خالی نشستوں پر درخواست دینے کی اجازت تھی یعنی SIS کی ویب سائٹ پر جتنی خالی نشستیں موجود تھیں ان سب پر ٹرانسفر کے لیے درخواست دی جا سکتی تھی۔ ہر معلم اور معلمہ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی بھی خالی نشست پر درخواست برائے ٹرانسفر جمع کروا سکے اور خودکار طریقے سے میرٹ کی بنیاد پر ٹرانسفر کروا سکے۔ لیکن اس بار صورت حال کچھ مختلف تھی۔ ٹرانسفر پالیسی سے یوں لگتا ہے کہ جیسے محکمہ تعلیم نے ریشنلائزیشن کی پالیسی پر عملدرآمد میں ناکامی کے بعد ٹرانسفر کی آڑ میں ریشنلائزیشن کرنے کا منصوبہ بنایا ہو۔

اس بار 10 جون سے 16 جون تک ٹرانسفر کے لیے درخواستیں وصول کی گئیں لیکن درخواست گزاروں کی تعداد انتہائی کم رہی۔ اوپن میرٹ پر صرف 9408 اور ویڈ لاک پر 9837 درخواستیں موصول ہوئی۔ پنجاب میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ سے زائد اساتذہ ہیں جن میں سے اوپن میرٹ اور ویڈ لاک کے تحت تقریباً 19 ہزار اساتذہ نے ہی ٹرانسفر کے لیے درخواست جمع کروائی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ساڑھے تین لاکھ اساتذہ میں زیادہ تر لوگ اپنے گھر سے قریبی سکول تعینات ہیں یا حکومتی پالیسی میں کوئی چالاکی کی گئی ہے۔

 

 

ٹرانسفر کے لیے درخواست SISنامی ایپلیکیشن کے ذریعے دی جاتی ہے، ایسے کئی اساتذہ جو ٹرانسفر کے خواہشمند تھے انہیں درخواست دینے کا موقع بھی نہیں دیا گیا ، در حقیقت محکمہ تعلیم ٹرانسفر کے نام پر ریشنلائزیشن کر رہا ہے۔

 

پہلی کیٹیگری اوپن میرٹ کی ہے جب محتلف اساتذہ نے ٹرانسفر کے لیے درخواست دی تو انہیں خود کار طریقے سے پیغام موصول ہوا کہ کیونکہ ان کے سکول میں کوئی اضافی surplus سٹاف موجود نہیں ہے اس لیے وہ درخواست دینے کے اہل نہیں ہیں یعنی کہ اب آپ جتنے بھی مجبور ہوں آپ ریٹائرمنٹ تک اسی سکول میں نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔ 

 

دوسری کیٹیگری ویڈلاک ، بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین کے لیے تھی ، لیکن اس پالیسی کے تحت بھی اگر آپ کے سکول میں اساتذہ کی تعداد سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی پالیسی کے مطابق پوری یا مطلوبہ تعداد سے کم ہو تو آپ ٹرانسفر کے لیے درخواست نہیں دے سکتے۔

 

اس کے علاؤہ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جن اساتذہ کو درخواست دینے کی اجازت دی گئی انہیں اپنے گھروں کے نزدیکی تعلیمی اداروں میں خالی آسامیاں ہونے کے باوجود  دور دراز کے سکولوں میں جانے کا آپشن دیا گیا۔ ( خالی آسامیوں کا ڈیٹا SIS کی ویب سائٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے).

 

ٹرانسفر اپلائی کرنے والوں کی اتنی کم تعداد کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت یہ ٹرانسفر کے نام پر ریشنلائزیشن ہے جو زیادہ تر اساتذہ کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ آن لائن ٹرانسفر کے بارے میں سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ شائد اب کسی معلم یا معلمہ کو ایم پی اے یا ایم این اے کے دربار پر حاضری نہیں دینی پڑے گی لیکن اس ٹرانسفر نما ریشںلائزیشن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سفارشی ٹرانسفر کا نظام اس سے بہتر تھا جہاں دھکے کھانے کے بعد ہی سہی پر ٹرانسفر ہو تو جایا کرتی تھی۔ خان صاحب کہا کرتے تھے کہ نہ میں جھوٹ بولوں گا نہ ہی میرا کوئی وزیر جھوٹ بولے گا۔ لیکن چالاکیوں کے بارےمیں شائد کچھ نہیں کہا تھا اس لیے ان کے وزراء اکثر چالاکیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔

 

 یہی چالاکیاں پہلی حکومتیں بھی کرتی تھی لیکن وہ روایتی چالاکیوں تک ہی محدود رہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے جیسے اپنی سیاسی مہم کے لیے ڈیجٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا ایسے ہی اس حکومت کی چالاکیاں بھی ڈیجٹل ہیں۔ لیکن یہ واضح رہے کہ آپ تمام لوگوں کو صرف تھوڑے وقت کے لیے ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں زیادہ دیر یہ ٹرک کی بتی آپ کے کام نہیں آئے گی۔