ڈارموں پر پابندی لگانے سے قبل معاشرے کے گند کو صاف کرلیں

ڈارموں پر پابندی لگانے سے قبل معاشرے کے گند کو صاف کرلیں
پیمرا نے دو ٹی وی ڈراموں ،عشقیہ،،اور پیار کے صدقے پر پاپندی لگا دی ہے اور ایک ڈرامہ سریل ،جلن،،کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ان ڈراموں کے خلاف بہت زیادہ شکایات موصول ہوئی تھیں جس کے بعد یہ کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ اس سے پہلے فلم سینسر بورڈ نے سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ،تماشہ ، پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔ پچھلی حکومت نے عاشر عظیم کی فلم مالک پر پابندی عائد کی تھی۔ فلم اور ٹی وی سے وابستہ لوگوں کا اگر ایک بین الاقوامی جائزہ لیا جائے تو یہ سوچنے سمجھنے والے تحلیقی لوگ ہوتے ہیں۔

سماج کے سیاسی تاریخی تہذیبی حالات کا مشاہدہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں ،کوئی بھی سکرپٹ رائٹر معاشرتی مطالعہ کے بعد ایک کہانی لکھتا ہے۔ پھر اس کو باقاعدہ سکرپٹ کی شکل میں ڈھالتا ہے اور ڈرامہ یا فلم بناتا ہے۔ سکرپٹ رائٹر اپنی کہانی اسی زمین کے کرداروں سے تلاش کرتا ہے۔ کہانی کی تلاش کے لیے اس کو مریخ پر یا کسی اور سیارے پر جانے کی ضرورت نہیں۔  کرہ ارض پر موجود ہر انسان اپنے چہرے پر ایک کہانی لیے گھوم رہا ہے ۔ سطور بالا میں جن ڈراموں پر پیمرا کی طرف سے پاپندی لگاہی گی ہے ان کی کہانیوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔کہ ان ڈراموں میں سالی اور بہنوئی کی محبت دکھائی جا رہی ہے سسر اور بہو کے تعلقات کو موضوع بنایا جا رہا ہے۔ یہاں ایک سوال کھڑا ہوتا ہے کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہوتا اگر نہیں ہوتا تو پھر آپ کا اعتراض جائز ہے۔  کہ سکرپٹ رائٹر معاشرتی اقدار کو پامال کر رہا ہے۔

مگر جب یہ سب خرافات اس سماج میں موجود ہیں تو پھر سکرپٹ رائٹر پر دشنام طرازی کیوں، آررو ادب کے عظیم افسانہ سعادت حسن منٹو کہتے تھے میری تحریروں میں برائیاں ہیں وہ درحقیقت سماج کی برائیاں ہیں۔ مسئلہ مجھ میں نہیں سماج میں موجود ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بیورو کریٹ چودھری محمد حسین جو منٹو صاحب اور قرہ العین حیدر کی تحریر میں فحش نگاری اور دو قومی نظریئے کی نفی ڈھونڈ لیا کرتا تھا وہ آج بھی زندہ ہے اور کسی دوسرے سرکاری آفیسر کی شکل میں موجود ہے۔ جو ڈرامے اور فلموں پر پابندی لگا دیتاہے۔ کیا سنسر بورڈ اور پیمرا میں بیٹھ کر فیصلہ سازی کرنے والوں کی ذہنی سطح اس لیول کی ہوتی ہے کہ وہ دانشوروں کے کاموں پر انگلی اٹھایں۔ ہرگز نہیں! ہمیں آپ سے دو قومی نظریے اور مذہبی اقدار کی پاسداری کی اسناد نہیں چاہیے۔ اپنے فتوے اپنے پاس رکھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ہر لکھنے والے کے اپنے دماغ میں سنسر بورڈ ہوتا ہے۔

وہ خود  فیصلہ کرتا ہے میں نے سماج نگاری کیسے کرنی ہے؟ لیکن پھر اگر کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنانا چاہتے ہیں تو اس نوکر شاہی سے وابستہ لوگوں کے بس کی یہ بات نہیں۔ موجودہ حکومت نے ایک اچھا فیصلہ وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے کیا ہے۔ اسی طرح ٹی وی اور فلم سے وابستہ لوگوں کی کمیٹی بنائی جائے جو ڈرامے اور فلمیں دیکھنے کے بعد فیصلے کرے۔ میں یہاں سکرپٹ رائٹرز محسن شاہ، عاصم شاہ، سرمد سلطان کھوسٹ اور عاشر عظیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں وہ سماجی حقیقت نگاری کا کام احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔