پی ڈی ایم کی آئندہ سیاست: مختصر یہ کہ ہنوز دلی دور است

پی ڈی ایم کی آئندہ سیاست: مختصر یہ کہ ہنوز دلی دور است
11 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم پاکستان ڈیموکریٹک الائنس نے نومبر سے حکومت کے خلاف ایک احتجاجی تحریک شروع کی ہوئی ہے جس کے زیر اہتمام اب تک چھ جلسے ہو چکے ہیں ،گوجرانوالہ، کراچی، پشاور، کوئٹہ، ملتان،اورلاہور میں 11 جماعتوں کا اتحاد اپنے پاور شو کر چکا ہے ،ان چھ جلسوں میں لاہور اور گوجرانولہ کی میزبانی مسلم لیگ ن کراچی اور ملتان کی پیلز پارٹی نے پشاور کی اےاین پی اور جمیت علماء اسلام ،اور کوئٹہ کی محمود اچکزئی اور اختر مینگل کی جماعتوں نے مشترکہ طور پر کی ہے۔

ان احتجاجی جلسوں کا بنیادی مقصد حزبِ اختلاف کی سیاسی قیادت پر قائم کیے گیے مقدمات کا دباؤ کم کرنا ہے۔ اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی تمام مرکزی قیادت بد عنوانی اور کرپشن کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔ نواز شریف سزا یافتہ ہوئے پھر اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں۔  شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں فریق ہیں اور جیل میں ہیں۔ مریم نواز کو ایوان فلیڈ کیس میں احتساب عدالت کی طرف سے سزا سنائی گئی وہ آج کل لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت پر ہیں۔

انکی سزا نیب نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ رانا ثنا اللہ منشیات کیس میں ضمانت پر ہیں اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی تفتیش چل رہی ہے۔  شاہد خاقان عباسی ایل این جی کیس ،احسن اقبال نارووال سپوٹس کمپلکس اور خواجہ سعد رفیق پیرا فون ہاؤسنگ سوسائٹی کیس میں ضمانت پر ہیں۔ پیلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت پر ہیں۔ خورشید شاہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار ییں یوسف رضا گیلانی پر بھی کرپشن اور توشہ خانی کیس کی تحقیقات چل رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کو نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں طلب کر رکھا ہے اور زیر تفتیش مقدمات میں ملوث ہیں۔ اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی خبر پحتو نخواہ پولیس کے خریدے گئے اسحلہ کیس میں فریق ہیں۔

غرض کہ اپوزیشن کی پوری قیادت ہی بد عنوانی میں ملوث ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پچھلے 40 سالوں میں اقتدار کا حصہ رہے۔ مولانا فضل الرحمن قاف لیگ کے دور میں قائد حزب اختلاف تھے ،بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے اتحادی رہےاور کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے۔

وہ وفاقی وزیر کا اسٹیٹس لیتے رہے۔ جب سے قومی سیاسی منظر نامے میں ایک نئی سیاسی جماعت تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف ایک واضح اسٹینڈ لیا ہے تب سے روایتی سیاست دانوں کے کیمپوں میں آثار تلاطم ہیں ،وزیر اعظم عمران خان کی طرف این آر او نہ دینے اور کسی قسم کی لچک نہ دکھانے پر ایک دوسرے پر بد ترین الزامات لگانے والوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ ہر قمیت پر حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے مقدمات میں ریلیف حاصل کرنا اپوزیشن کا اولین ترجیح ہے۔ دوسری طرف مارچ میں سینٹ کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ جن کے بعد کہیں تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہو جائے یہ بھی ایک خوف ہے۔ 11 رکنی اتحاد کو ایک دوسرے کے قریب کہے ہوے ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن کے جلسے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہیں تاہم ابھی تک وزیر اعظم عمران خان دباؤ کا شکار نظر نہیں آتے۔

 

 لاہور جلسہ 30 سے 35 ہزار تک رہا۔ 11 جماعتوں نے جس قدر ہجوم جمع کیا۔ ماضی میں عمران خان تن تنہا مینار پاکستان میں جلسے کیے ،مسلم لیگ ن ماضی میں بیت مقتدرہ کی فیورٹ رہی ہے مگر اب خلیج خاصی وسیع ہوچکی ہے۔ نون لیگ کے آنسو درحقیقت طلاق یافتہ عورت کے آنسو ہیں۔ اب جبکہ احتجاج کا پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے۔ آریا پار کا دعویٰ کرنے والے پی ڈی ایم کوئی واضح اعلان کرنے میں ناکام رہی ہے۔ محمود خان اچکزئی لسانی بنیادوں پر سطحی قسم کی سیاسی تقریریں کر رہے ہیں۔

وہ وطن عزیز میں لسانی بنیادوں پر فساد برپا کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پہلے کراچی میں اردو بولنے والوں کے خلاف اب لاہور میں پنجابیوں کے خلاف تقریر کر کے وہ اپنے اندر کا تعصب باہر لائے ہیں۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو بہت سنجیدگی سے اچکزئی کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب حکومت نے ملتان جلسے والی بے وقوفی نہیں کی اور لاہور جلسے میں کوئی روکاٹ نہیں ڈالی۔ مینار پاکستان کی تینوں اطراف سے آنے والی سڑکیں کھلی تھیں۔ جلسے کے اختتام پر نواز شریف کی تقریر سننے کے لیئے خالی کرسیاں تھی اور مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دے دیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے ہنوز دلی دور است۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔