عمران چاہتے ہیں ISI ان کی حفاظت کرے، اسٹیبلشمنٹ تیار نہیں

عمران چاہتے ہیں ISI ان کی حفاظت کرے، اسٹیبلشمنٹ تیار نہیں
وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انہوں نے اپنی کابینہ کو کہہ دیا ہے کہ اگلے تین مہینے انتہائی اہم ہیں لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ کیوں۔ مسلم لیگ نواز کے بڑوں کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے لیکن وہ بھی اس پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ تاہم، میڈیا میں قیاس آرائیاں سول اور عسکری انتظامیہ کے درمیان بڑھتے تناؤ کے حوالے سے ہی جاری ہیں جن کی کم از کم تاریخ یہی رہی ہے کہ حکومت کی تبدیلی پر منتج ہوتی ہیں اور اکثر سویلین حکمرانوں کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ چونکہ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے کہ جب شدید تر ہوتا معاشی بحران عوامی احتجاج کی وجہ بن رہا ہے، افغانستان میں اپنے ٹھکانوں سے دہشتگرد ایک بار پھر متحرک ہو چکے ہیں، امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں جب کہ تیزی سے متشدد ہوتی تحریکِ لبیک پاکستان بڑھی چلی آتی ہے، تو پریشانی اور بھی دوچند ہو جاتی ہے۔

ایک اہم سنگِ میل 19 نومبر کی تاریخ ہے کہ جب وزیر اعظم کے نوٹیفکیشن کے مطابق آئی ایس آئی کی کمان تبدیل ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی بڑھتی کشیدگی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس فیصلے کو انہوں نے خاصی لیت و لعل کے بعد تسلیم کیا۔ وہ چاہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ویسے ہی ان کے تمام سیاسی مسائل حل اور ان کی حفاظت کرتی رہے جیسے پچھلے کچھ سالوں سے کرتی آئی ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ قطعاً اب اس کے لئے تیار نہیں کیونکہ اس کے عمران خان کے ساتھ 'ایک صفحے' پر ہونے کے بیانیے نے اس کو اچھی خاصی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اب گیند عمران خان کے کورٹ میں ہے۔ کیا وہ سب کچھ داؤ پر لگا کر اسٹیبلشمنٹ پر پہلے وار کر گزریں گے؟ کیا وہ لڑتے ہوئے ہارنے کا فیصلہ کریں گے اور اگلے چند برس کے لئے اقتدار کے ایوانوں سے دور رہنے کے لئے تیار ہوں گے؟ یا پھر اس مشکل صورتحال سے بخیر و عافیت نکل جائیں گے؟

حالیہ دنوں میں پیش آئے کچھ واقعات ان کی سوچ کا سراغ دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے سول ملٹری سپاہیوں کو تحریک لبیک کو بزورِ بازو دبانے کا حکم دیا۔ لیکن پنجاب پولیس اس میں ناکام ہو گئی اور رینجرز نے کچھ کیا ہی نہیں جس کی وجہ سے ان کو یو ٹرن لے کر ایک معاہدہ کرنا پڑا جو اس حد تک شرمناک ہے کہ وزیر اعظم ابھی تک اس کے بارے میں عوام کو اعتماد میں لینے سے قاصر ہیں۔ دوسری چیز وہ کالے قوانین ہیں جنہیں وہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کر کے میڈیا کو قابو میں لانے اور سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اگلے انتخابات میں ان کے لئے کوئی مشکل کھڑی نہ کر سکیں۔ ان میں مخصوص جگہوں پر انتخابی دھاندلی کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق متعارف کروانے کا قانون، اپوزیشن کے خلاف سیاسی انتقام کی خاطر نیب چیئرمین کے تقرر اور برخاستگی کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا قانون، اور پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے میڈیا کو قابو میں لانے کا قانون بھی شامل ہیں تاکہ میڈیا ان کے خلاف کسی مقبول بیانیے کی حمایت میں نہ کھڑا ہو سکے۔ تیسری چیز ان کی جانب سے دی گئی 'تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج' نام کی میٹھی گولی ہے جو کہ 120 ارب روپے پر مشتمل ہے یعنی ایک عام پاکستانی کو اس کی وجہ سے چھ ماہ تک روزانہ 5 روپے کا فائدہ ہوگا۔ یہ کوشش بڑھتی کرپشن اور ان کی حکومت کی خراب کارکردگی پر بڑھتے عوامی غم و غصے کو کم کرنے کی نیت سے کی گئی ہے۔ یقیناً ان کی جانب سے دوسرے ملکوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا پاکستان میں قیمتوں سے تقابل عوام الناس کے لئے جو کہ پہلے ہی مہنگائی کی چکی تلے پس رہے ہیں جلتی پر تیل کا کام ہی کر سکتا تھا کیونکہ اس میں قیمتوں کا تقابل تو شامل تھا لیکن جن ممالک سے مقابلہ کیا جا رہا تھا وہاں کے شہریوں کی آمدنی اور روزگار کے مواقع سے ہمارا کوئی مقابلہ نہیں کیا گیا۔ لیکن ان سب اقدامات سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت کو درپیش مشکلات سے لڑنا چاہتے ہیں اور ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ جمہوری رستہ اپناتے ہوئے انتخابات کا اعلان کریں اور عوام کو ایک بار پھر فیصلے کا اختیار دیں۔

 
اب تک اسٹیبلشمنٹ کی دلیل یہ تھی کہ ان کے پاس تحریک انصاف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن واپس اقتدار میں آئی تو دشمنی پر اترے نواز شریف ان سے بدلہ لینے نہ کھڑے ہو جائیں اور پیپلز پارٹی بات مانتی ہے لیکن اتنی مقبول نہیں کہ عام انتخابات جیت سکے۔

 

لیکن ایک طرف عمران خان پاؤں جما کر لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں تو دوسری جانب ریاست کے وہ تمام ستون جو انہیں اقتدار میں لانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئے تھے اب ان کی راہ میں مزاحم ہیں۔ پنجابی بیوروکریسی نے اپنے قلم چھوڑ رکھے ہیں اور نظام حقیقتاً منجمد ہے۔ پنجاب پولیس تین سال میں ساتواں سربراہ کھونے کے درپے ہے اور اس صورتحال میں اس کے حوصلے پست ہیں۔ الیکشن کمیشن عمران خان اور ان کے وزرا کی بدتہذیبیوں اور دھمکیوں کے باوجود ان کے خلاف مزاحمت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ عدالت نے بلدیاتی انتخابات کا حکم دے دیا ہے یہ جانتے ہوئے کہ تحریکِ انصاف کا صفایا ہو جائے گا۔ اور یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کے متنازع ترین آرڈیننس بھی عدالتیں فارغ کر کے بادشاہ کو ننگا دکھا دیں گی۔

اب تک اسٹیبلشمنٹ کی دلیل یہ تھی کہ ان کے پاس تحریک انصاف کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ مسلم لیگ ن واپس اقتدار میں آئی تو دشمنی پر اترے نواز شریف ان سے بدلہ لینے نہ کھڑے ہو جائیں اور پیپلز پارٹی بات مانتی ہے لیکن اتنی مقبول نہیں کہ عام انتخابات جیت سکے۔ پر موجودہ حالات میں عمران خان جس قسم کے اقدامات لینے کے موڈ میں نظر آتے ہیں، تصفیے کی کوئی راہ یقیناً نکالی جا سکتی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ایک صاف شفاف انتخابات کی ضمانت دے (جو کہ یقیناً مسلم لیگ ن کی فتح پر ہی منتج ہوں گے) تو نواز شریف مسلم لیگ ن کے قابلِ قبول چہرے شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے لئے نامزد کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے کلیدی کرداروں کو ایک محفوظ راستہ دے دیں۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ٹیلی وژن پر اس قسم کی سرخیاں بنانے سے قاصر رہی ہے جو کسی بھی سنجیدہ اور خطرناک تحریک کے لئے لازمی ہوتی ہیں۔ ان کے لیڈران تحریکِ لبیک پاکستان کے سڑکوں پر آنے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں جس طرح چند برس پہلے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف لبیک کے احتجاج کے موقع پر عمران خان نے اٹھایا تھا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ سیاست نام ہی اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اس قسم کے مواقع کا بے رحمانہ انداز سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ شاید اسٹیبلشمنٹ نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو 'قومی مفاد' میں معاملات کو مزید خراب کرنے سے گریز کا مشورہ دیا ہے اور پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کو تحریکِ انصاف سے دور کرنے کی خواہش میں یہ مشورہ مان لیا ہے۔

سیاسی نجومیوں کے ستارے کیا کہہ رہے ہیں یہ بھی بہت جلد سامنے آ جائے گا۔ اگر 20 نومبر کو آئی ایس آئی کی کمان ایک نئے سربراہ نے سنبھال لی تو اس سے ایجنسی میں سیاسی غیر جانبداری کا ایک نیا دور شروع ہوگا جس کے ملکی سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے دماغ میں کچھ اس سے زیادہ شاطرانہ چالیں موجود ہوں۔ ایسا ہوتا ہے تو پھر معاملہ کہیں بھی جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ خزاں کے بدلتے رنگ کیا ایک اور عدم اطمینان کے جاڑے کا پتہ دے رہے ہیں؟ یا پھر بہار پہلے ہی فضاؤں میں رچنا بسنا شروع ہو چکی ہے؟




نجم سیٹھی کا یہ کالم The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔