رانا شمیم کا بیٹا شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کھیل گیا

رانا شمیم کا بیٹا شاہزیب خانزادہ کے ساتھ کھیل گیا
پاکستانی ٹیلی وژن کی تاریخ ڈرامائی لمحات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں گالم گلوچ بھی دیکھی گئی ہے اور لڑائی مار کٹائی ہوتے بھی دیکھی گئی ہے۔ لوگوں نے ایک دوسرے پر طعنہ زنی کر کے انہیں نیچا دکھانے کی کوششیں بھی کی ہیں اور اینکرز نے وزرا اور حکومتی عہدیداروں کو حقائق بیان کر کے خآموش ہو جانے پر مجبور بھی کیا ہے۔ کئی مواقع پر یہ بازی پلٹ جاتی ہے اور سیاستدان بھی اینکرز کو پکڑ لیتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات ٹاک شوز پر ہوں تو ریٹنگز بھی خوب لیتے ہیں۔ لیکن منگل 16 نومبر کی شام ہم نے ایک ایسا نظارہ ٹی وی پر دیکھا کہ جس کی سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہو کیا رہا ہے۔

شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے صاحبزادے ایڈووکیٹ احمد حسن رانا تھے۔ بات ہو رہی تھی رانا شمیم کی جانب سے حال ہی میں سامنے آئے بیانِ حلفی کی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جولائی 2018 میں گلگت بلتستان کے دورے کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کو کال کر کے یہ ہدایات دیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو الیکشن سے پہلے ضمانت پر رہا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس بیانِ حلفی اور اس کی بنیاد پر دی نیوز میں شائع ہونے والی خبر پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹس لیتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے۔ اس کیس میں رانا شمیم کی وکالت بھی ان کے فرزندِ ارجمند ہی کر رہے ہیں جو اس وقت شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ٹی وی پر موجود تھے۔

میں بھی بیانِ حلفی جمع کروانے کو تیار ہوں کہ میں نے اس سے زیادہ مضحکہ خیز 15 منٹ ٹیلی وژن کی تاریخ میں نہیں دیکھے کہ جب وکیل صاحب پروگرام میں تو آ گئے لیکن جب ان سے کیس کے متعلق سوالات کیے جانے لگے تو وہ ایسی بے پر کی ہانک رہے تھے کہ مسلم لیگ ن کے حمایتی بھی سوال اٹھانے پر مجبور ہو گئے کہ یہ ہمارا وکیل ہے یا ثاقب نثار کا۔ احمد حسن رانا کے حوالے سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی بے وقوف وکیل لگ  رہے ہیں اور انہوں نے اپنی نااہلی سے اپنے والد کا کیس خراب کر دیا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ بات درست ہے۔ میرے نزدیک اس رویے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ ہو سکتی ہے کہ احمد حسن رانا بہت ہی چالاک وکیل ہوں اور وہ شاہزیب خانزادہ کا چیزا لے رہے ہوں۔ کیونکہ دیکھیے پورے انٹرویو میں انہوں نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولا جو ان کے والد کے کیس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو۔ شغل انہوں نے خوب لگایا۔ 15 منٹ شاہزیب خانزادہ ان سے یہ نہیں نکلوا سکے کہ رانا شمیم کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی کہ نہیں۔ وہ ان سے یہ بھی نہیں کہلوا سکے کہ ان کے والد کو تین سال بعد یہ خیال کیوں آیا؟ بلکہ اس کا جواب تو انہوں نے خاصا شافی دے دیا کہ اگر یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے تو یہ فوجداری مقدمہ ہوگا اور اس پر کارروائی کسی بھی وقت شروع کی جا سکتی ہے۔

پھر انہوں نے شاہزیب خانزادہ کے ساتھ ایک نیا تماشہ یہ لگایا کہ میں اپنے والد کو فون کر رہا ہوں، ان سے پوچھ کر آپ کو بتا دیتا ہوں کہ کیا کہنا ہے۔ اور پھر ایک منٹ ضائع کر کے کہہ دیا میرے والد صاحب کہہ رہے ہیں 'نو کمنٹس'۔

میں اگر شاہزیب خانزادہ کی جگہ ہوتا تو اس انٹرویو میں میرے لئے کوئی قابلِ فخر بات نہ ہوتی۔ یہ ایک تھکا دینے والا تکلیف دہ انٹرویو تھا جس میں ایک وکیل یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اس نے صحافی کو جواب نہیں دینا اور اس کے لئے اس نے اپنا مذاق بھی اڑا لیا، کئی کئی سیکنڈ پروگرام مکمل طور پر میوٹ رہا کیونکہ دونوں حضرات کوئی بات ہی نہیں کر رہے تھے۔ پروگرام دیکھنے والوں کے لئے اگر یہ اس قدر افسوس ناک منظر نہ ہوتا تو مضحکہ خیز ہوتا۔

دوسری وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ والد صاحب نے کسی بات پر ڈانٹ دیا ہو۔ سنا ہے وہ کسی اور پروگرام میں بھی آئے تھے اور وہاں انہوں نے کچھ ایسی بات کی جو کہ ان کے والد کے مقدمے کے خلاف جاتی تھی۔ ممکن ہے والد نے لندن سے فون کر کے ڈانٹ دیا ہو اور پھر انہوں نے اپنے والد کو طعنے دینے کے لئے شاہزیب خانزادہ کو کہنا دھی نوں سنانا نوں نوں کے مصداق اپنے والد کے مظالم کی داستان سنائی ہو، اپنی عمر 43 سال ہونے اور سپریم کورٹ کا وکیل ہونے کے باوجود والد کا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو ہدایات دینے کے معاملے پر رونا رویا۔ لیکن بہرحال وہ والد کے حکم کے خلاف گئے نہیں، انہوں نے کچھ شاہزیب خانزادہ یا مخالف وکلا کو کھیلنے کے لئے نہیں دیا جس سے ان کا کوئی بڑا نقصان ہوتا۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.