اس سیاست کی طرف واپس جانا ہوگا جس میں وعدے کم کام زیادہ ہوتا ہے

اس سیاست کی طرف واپس جانا ہوگا جس میں وعدے کم کام زیادہ ہوتا ہے
اس کڑوی حقیقت کو میٹھا بنا کر پیش کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ ہیں جو اپنے آپ سے ہی برسرِ پیکار ہے۔

2022 کے دوسرے ہفتے میں بھی اس جنگ کے بند ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ نفرت اب بھی شدید تر ہو رہی ہے؛ اختلافات کی خلیج وسیع ہو رہی ہے؛ اور زہر مسلسل پھیل رہا ہے۔ اس سارے عمل میں ہم نے تہذیب کی موت، مباحثے کی سطحیت اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھرتے دیکھی ہیں۔ اس معاشرے کے خود کو لگائے گئے زخموں سے خون رس رہا ہے۔

خود کو نقصان پہنچانے کا یہ عمل ایک منصوبے کے تحت انجام پایا۔ یا کم از کم پہلے سے بنائے گئے منصوبوں کے یہ غیر ارادی نتائج ضرور ہیں۔ آڈیو اور ویڈیو لیکس پر پریشانی بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جب آپ معاملات کو اس نہج پر لے جانا چاہیں تو ہر سیڑھی پر قوانین تو روندے جائیں گے۔ شائستگی اور معاشرتی اقدار بھی۔ اس کے بعد سب کچھ قرونِ وسطیٰ کی سی بربریت کی طرح ہوگا اور وہ بھی جدیدیت کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر۔

پاکستانی معاشرہ پچھلی پانچ دہائیوں میں کبھی اتنا منقسم نہیں تھا جتنا آج ہے۔ تقسیم کو اس کی شدت سے نہیں ماپا جاتا – تقسیم تو ہمارے سیاسی ارتقا میں مسلسل ایک لازمی جزو رہی ہے – لیکن معاشرے کی بنت کو جو اس نے نقصان پہنچایا ہے، اس کی پہلے مثال نہیں ملتی۔ زہر اندر تک پھیل چکا ہے اور اسے معاشرے کی رگوں میں داخل کرنے والے چلے بھی جائیں، یہ زہر یہیں رہے گا۔ جب لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام نہ کر سکیں اور ان کے مقتدی ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرنے کے قابل نہ رہیں تو سمجھ جائیے کہ زہر سیاست کی رگوں اور پٹھوں تک میں گھل چکا ہے۔

اس تقسیم نے ایسی مصنوعی دوئی بھی پیدا کر دی ہے کہ جس نے معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی ارتقا کو روک دیا ہے۔ جب قومی گفتگو میں سب کچھ صرف سیاہ و سفید میں تقسیم ہو اور گرے مباحثے سے بالکل باہر نکل جائے؛ جب سیاست کو حق و باطل کا معرکہ اور سیاستدانوں کو ہیرو اور ولن میں بانٹ دیا جائے؛ اور جب ایک دوسرے کے لئے برداشت اس حد تک کم ہو جائے کہ قوانین کو توڑنا مروڑنا بھی جائز سمجھا جانے لگے – جب یہ سب کچھ ہو تو سمجھ جائیے: جس نظام کے تحت یہ معاشرہ چل رہا ہے، اس کی چولیں ہل چکی ہیں، اور جو اقدار ہمیں باندھے ہوئے ہیں، ان میں ہوئے چھیدوں سے خون رس رہا ہے۔

ایک آئینی ریاست کے لئے ایسے حالات غیر فطری ہیں۔ اور معاملات زیادہ دیر ایسے نہیں چلائے جا سکتے۔ جلد یا بدیر وہ پورا نظام جس پر یہ ریاست کھڑی ہے – یعنی قانون اور اسے نافذ کرنے والوں کا احترام – ایک دوسرے کے لئے شدید بیزاری اور نفرت کے بوجھ تلے دب جائے گا۔ عصبیت قانون اور نظامِ ریاست کی جانب سے عائد کی گئی تمام پابندیوں کو توڑتی ہوئی شہریوں کو اس خوفناک حقیقت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینے پر مجبور کر دے گی۔ کچھ حوالوں سے تو یہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ بوسیدگی کا یہ عمل صرف ہمارے ارد گرد ہی نہیں، ہمارے اندر بھی جاری ہے۔

ذرا خود سے یہ سوال پوچھیے: کیا آپ آج کے ملکی حالات کا ایک غیر جذباتی انداز میں تجزیہ کر سکتے ہیں؟ کیا آپ آسان لیکن خطرناک تاویلوں کے بغیر صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتے ہیں؟ جواب شاید آپ کے لئے حیران کن ہو۔ اور آپ کو دھچکا بھی پہنچائے۔

تو ایک معاشرہ جو اپنے ہاتھوں سے ہی خود کو زخم آلود کر رہا ہو، اپنا علاج کیسے کر سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب ایک ایسے معاشرے میں ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے جو خود کو ایک ایسے کھیل میں الجھا چکا ہو جس کا حاصل وصول کچھ نہیں۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے جس میں ترجیح مخالف کو تباہ کرنا ہے، اس کو شکست دینا نہیں۔ اور یہ ممکن نہیں۔ پچھلے چند سالوں نے یہ بات واضح کر دی ہے۔ وقت اب دنیا و مافیہا کو سیاہ و سفید میں بانٹنے والے بیانیے میں گرے کو دوبارہ داخل کر رہا ہے۔ اس بیانیے کے سحر میں مبتلا پاکستانی جو اپنی ہی ناجائز امیدوں کے اسیر بنے بیٹھے تھے، اب اپنی آنکھیں ملتے اس سحر سے بیدار ہو کر جاننے لگے ہیں کہ یہاں کوئی ہیرو اور ولن نہیں بلکہ خامیوں اور خوبیوں کے مرکب خواتین و حضرات کی ایک طویل فہرست ہے جو اپنی اوسط درجے کی سطح تک پہنچنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ نظام کی خامیاں اسے چلانے کی خواہش رکھنے والوں کی نااہلی جتنی ہی واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ عوام کی امیدوں اور لیڈران کی ان امیدوں پر پورا اترنے کی اہلیت کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ سحر ماند پڑ رہا ہے۔

بیانیے اور مقاصد میں چھوٹا پن زیادہ عرصے تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ پچھلے چند سالوں سے اگر کوئی ایک سبق حاصل کر سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ گورننس اور ریاستی امور کو چلانے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ طاقت کے استعمال میں غیر سنجیدگی بسا اوقات اس کے غلط استعمال سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ اگر حالات میں سدھار لانا ہے تو اس کی شروعات قانونی طریقہ کار اور سنجیدہ منصوبہ بندی کی طرف واپسی سے ہی ہوگی۔ اور اس عمل کو اس انداز میں نہیں چلایا جا سکتا کہ مقصد ایک دوسرے کی تباہی ہو بلکہ اسے ایک پیچیدہ معاملہ جانتے ہوئے آگے لے کر چلنا ہوگا کہ جس میں احتساب کا عمل ایک اہم جزو ہو، رکاوٹ نہیں۔

آج ہم کمزور ہیں کیونکہ ہم نے ریاستی امور چلانے کی بنیادوں کو تیاگ دیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں پہلے ہی اعتماد نایاب ہے، اعتماد کو سیاسی کج بحثی کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ آج احتساب کا عمل برے حالوں میں ہے کیونکہ ہم نے یہی کیا ہے۔ اور ریاست کے کمزور نظامِ انصاف کا بھی یہی حال ہے کیونکہ یہ تحقیقات، قانونی چارہ جوئی اور سزا دینے کو ایک ایسا عمل بنا دیتا ہے جس سے اس نظام میں اعتماد پیدا ہونے کی بجائے مزید کم ہو جاتا ہے۔

ایک ایسا تجربہ کبھی بھی دیکھنے والوں میں اعتماد پیدا نہیں کر سکتا جس میں لیبارٹری ہی تباہ ہو جائے۔ ۔ دوبارہ سے ایک نارمل ملک بننا آسان نہیں ہوگا۔ عوام میں راسخ خیالات کے برعکس اس بکھرے ہوئے معاشرے کو جوڑنا اور زہر آلود اندازِ گفتگو سے اس کو پاک کرنے کا کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں ہے۔

ہمیں کچھ دیر ٹھہر کر سوچنا ہوگا۔ سب لوگوں کو ایک رات کے لئے اپنی تلواریں نیام میں رکھ کر، ڈھالوں کو واپس کمر پر ڈال کر واپس اپنے خیموں کی طرف جانا ہوگا۔ یا شاید دو راتوں کے لئے۔ نقصان کا تخمینہ لگانا ہے، زخمیوں کا علاج کرنا ہے اور مردوں کو دفنانا ہے۔ ہمیں بیٹھ کر اپنی دفاعی فصیلوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ تلواروں کے پھلوں کو تیز کرنا ہے، ان کی ہتھیوں کی مرمت کرنا ہے۔ جنگی حکمتِ عملی کو دوبارہ سے دیکھنا ہے اور جیت کے لئے نیا منصوبہ تشکیل دینا ہے۔

تلواریں لہراتے مہم جو ہیرو، ہیروئنوں کا وقت آئے گا، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ بڑے بڑے دعوؤں والی سیاست اور تیز دھار بیانیوں کا وقت آئے گا، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ اور ہمیں ہمارے خوابوں کی دنیا میں لے جانے والے نجات دہندوں کا وقت آئے گا، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا۔

فی الحال حالات کو ٹھیک کرنے کا وقت ہے۔ صرف حالات کو ٹھیک کرنے کا۔




یہ مضمون فہد حسین نے ڈان اخبار کے لئے لکھا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔