ظفر اقبال کے بیٹے 'آفتاب اقبال' اور حبیب جالب کی شاعری

ظفر اقبال کے بیٹے 'آفتاب اقبال' اور حبیب جالب کی شاعری
نامور کالم نگار، اینکر پرسن اور سکرپٹ رائٹر آفتاب اقبال ایک بار پھر اپنی جملے بازی کے باعث خبروں میں ہیں۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں انقلابی شاعر حبیب جالب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کوئی شاعر تو تھے نہیں، جلسوں کے شاعر تھے، مزاحمت کی بات کرتے تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک مذہبی معاملے پر مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ اداکار سلطان راہی اور شان کی ادکاری کا موازنہ کرتے ہوئے شان کو بہتر ادکار قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا 'سلطان راہی شان کے آگے کیا بیچتا ہے؟' بعد ازاں ان کو دونوں معاملات پر معذرت کرنی پڑی تھی۔ مذہبی معاملے کو تو ایک طرف رکھ دیں ادکار سلطان راہی اور شان کے حوالے سے راقم الحروف نے نیا دور میں کالم بھی لکھا تھا۔

اب جو معاملہ درپیش ہوا ہے وہ یوں ہے کہ آفتاب اقبال آج کل ایک نجی ٹیلی ویژن پر کسوٹی پروگرام کرتے ہیں، ان سے اور ان کے ساتھی سے کسوٹی میں حیب جالب کو بوجھنے کا کہا گیا اور بیس سوالات کے اندر جواب دینا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حبیب جالب کوئی شاعر تو تھا نہیں۔ وہ تو جلسوں جلوسوں کا شاعر تھا۔ مزاحمت کی شاعری انہوں نے کی ہے۔ ایک صاحب نے لقمہ دیا کہ شہباز شریف نے جو ان کی شاعری کا حشر کیا ہے تو آفتاب اقبال نے جواب دیا کہ جس آدمی کی شاعری شہباز شریف پڑھے وہ کیا شاعر ہوگا، یہ تو disqualification ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کوئی ادبی شخصیت نہیں ہیں اور ان کی بات کسی شاعر کی شاعری پڑھنے کو اس شاعر کے لئے سند نہیں سمجھا جا سکتا مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حبیب جالب کو جو شہرت اور مقبولیت ملی ان کے کسی ہم عصر شاعر کو نہیں ملی۔ حبیب جالب کے ہم عصر شاعروں میں ظفر اقبال (جو آفتاب اقبال کے والد ہیں) فیض احمد فیض، ن م راشد، مجید امجد اور ناصر کاظمی ہیں، یہ سب عظیم شاعر تھے۔ ان کے کلام کو سند ادبی ناقدین کی طرف سے مل چکی ہے۔ یہ سب اردو ادب کی کلاسیکی روایات کے امین ہیں، ان کی شاعری خالص ادبی شاعری ہے جو صرف ادبی محفلوں میں پڑھی جا سکتی ہے، ان شاعروں نے سیاسی بات بھی اگر کی ہے تو ادبی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد کی۔

مثال کے طور پر فیض احمد فیض کے سیاسی نظریات سے سب واقف ہیں، وہ جب سیاسی موضوعات پر شاعری کرتے تو اس میں بھرپور ادبیت ہوتی اور کبھی کسی ادبی ناقد نے ان پر سیاسی نعرے کا الزام نہیں لگایا۔ جہاں تک حبیب جالب کی بات ہے تو ان کے خمیر میں ہی سیاست تھی، انقلاب ان کے لہو میں گردش کرتا تھا، انہوں نے ہمیشہ پسے ہوئے طبقے کی بات کی، ہمیشہ عام آدمی کی شاعری عام زبان میں کی، ان کی اُردو عام آدمی کی اردو تھی، وہ ادبی ناقدین کی اردو نہیں تھی، میرے خیال میں آفتاب اقبال بولتے ہوئے جملوں کے انتخاب میں رسوا ہوئے ہیں، اگر وہ یوں کہہ دیتے کہ حبیب جالب اپنے ہم عصر شاعروں فیض احمد فیض، ن م راشد، مجید امجد اور ناصر کاظمی سے مختلف تھے، جالب نے اپنی شاعری میں دوسرا راستہ اختیار کیا اور اردو ادب کی کلاسیکی روایات سے ہٹ کر شاعری کی تو زیادہ بہتر ہوتا۔

حرف آخر جب تک کائنات میں اُردو زبان و ادب کا وجود رہے گا، یہ سب عظیم شاعر فیض احمد فیض، ن م راشد، مجید امجد اور ناصر کاظمی کی شاعری، کتابوں، ادبی ناقدین، ادبی محفلوں، صاحب عالم شخصیات اور موسیقی میں زندہ رہے گی جب کہ حبیب جالب انقلابی تحریکوں اور مزاحمت کاروں میں زندہ و جاوید رہے گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔